ایران میں اجنبی ۔ ن م راشد
ن۔م۔راشد کا دوسرا شعری مجموعہ ’ ایران میں اجنبی‘ (1955) میں شائع ہوا ۔راشد نے اپنے پہلے شعری مجموعے ’ماورا‘ (1942) کی اشاعت سے ہی ادبی دنیا میں اپنی شناخت قائم کر لی ۔انھوں نے اپنی شاعری کی ابتدا میں یہ واضح کر دیا کہ ان کی شاعری روایتی اور مرو جہ طرز فکر اور طرز اظہار کی پابند نہیں ہے۔ راشد کی شاعری نہ صرف اس لیے توجہ طلب ہے کہ انھوں نے ہیئت و اسلوب کے تجربے کیے اور آزاد نظم کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ ان کی شاعری فکری اعتبار سے بھی اپنے معاصرین کی شاعری سے منفرد و بلند ہے۔ راشد کو اپنے موقف کی وضاحت کی ضرورت اسی لیے پڑی کہ ان کی شاعری مروجہ شاعری سے الگ تھی۔ اقبال کے بعد راشد اکیلا شاعر ہے جس کے یہاں مشرق ایک مستقل موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔ مشرق کو بحیثیت موضوع اس طور سے شاعری میں برتنے کی مثال ان کے ہم عصروں یا بعد کے شاعروں میں نظر نہیں آتی۔ راشد کی شاعری پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ راشد کی دلچسپی مشرق وسطیٰ کی زندگی اور وہاں کے مسائل گہری رہی ہے، اور ان کی شاعری کا بڑا حصہ اسی پس منظر سے مربوط ہے۔ بالخصوص ایران سے راشد کی وابستگی بہت گہری تھی۔ قیامِ ایران کے دوران راشد نے ایران کی انفرادی اور اجتماعی زندگی اور وہاں کی سیاسی،سماجی، تہذیبی اور معاشی صورتِ حال کو بہت قریب سے دیکھا۔
©2024 - غزل سرا ڈاٹ آرگ