27 دسمبر 1809 ۔ 11 جولائی 1869

مصطفٰی خان شیفتہ
نواب مصطفٰی خان شیفتہ جہانگیر آباد کے جاگیردار، اردو فارسی کے باذوق شاعر اور نقاد تھے۔
مزید

29 جون 1914 ۔ 11 مئی 1974

مجید امجد
اردو نظم کی آبرو مجید امجد ایک رجحان ساز شاعر ثابت ہوئے اور انہوں نے آزاد نظم کو ایک سمت دی جس کی وجہ سے اس صنف کا سفر کامیاب رہا۔
مزید

01 اگست 1790 ۔ 01 نومبر 1854

شیخ ابراہیم ذوق
مغلیہ سلطنت کے برائے نام بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے عہد میں، ملک الشعراء کے خطاب سے نوازے جانے والے ذوق اپنے زمانہ کے دوسرے اہم شاعروں غالب اور مومن سے بڑے شاعر مانے جاتے تھے.
مزید

10 اپریل 1772 ۔ 16 اگست 1838

امام بخش ناسخ
شیخ امام بخش ناسخ کا شمار اردو کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ ناسخ جب فیض آباد سے لکھنؤ آئے تو ایک رئیس میر کاظم علی سے منسلک ہو گئے جنھوں نے ناسخ کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ ان کے انتقال پر اچھی خاصی دولت ناسخ کے ہاتھ آئی۔ انھوں نے لکھنؤ میں بود و باش اختیار کر لی اور فراغت سے بسر کی۔
مزید

25 مئی 1831 ۔ 17 مارچ 1905

داغ دہلوی
داغ دہلوی اردو غزل کے چند بڑے شعرا میں سے ایک ہیں۔ ان کے شاگردوں کا سلسلہ ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا۔ اقبال، جگر مراد آبادی، سیماب اکبر آبادی اور احسن مارہروی جیسے معروف شاعر وں کو ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے جانشین نوح ناروی بھی ایک معروف شاعر ہیں۔
مزید

16 دسمبر 1752 ۔ 19 مئی 1817

انشاء اللہ خان انشا
سید انشاء اللہ خان انشا کی ذہانت اور جدت پسندی انہیں اپنے ہم عصروں میں منفرد نہیں بلکہ تاریخ ادب میں بھی ممتاز مقام دلاتی ہے۔ غزل، ریختی، قصیدہ اور بے نقط مثنوی اور اردو میں بے نقط دیوان رانی کیتکی کی کہانی جس میں عربی فارسی کا ایک لفظ نہ آنے دیا۔
مزید

دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا

مومن خان مومن


دیدۂ حیراں نے تماشا کیا
دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا
ضبط فغاں گو کہ اثر تھا کیا
حوصلہ کیا کیا نہ کیا کیا کیا
آنکھ نہ لگنے سے شب احباب نے
آنکھ کے لگ جانے کا چرچا کیا
مر گئے اس کے لب جاں بخش پر
ہم نے علاج آپ ہی اپنا کیا
بجھ گئی اک آہ میں شمع حیات
مجھ کو دمِ سرد نے ٹھنڈا کیا
غیر عیادت سے برا مانتے
قتل کیا آن کے اچھا کیا
ان سے پری وش کو نہ دیکھے کوئی
مجھ کو مری شرم نے رسوا کیا
زندگیِ ہجر بھی اک موت تھی
مرگ نے کیا کار مسیحا کیا
پان میں یہ رنگ کہاں آپ نے
آپ مرے خون کا دعویٰ کیا
جور کا شکوہ نہ کروں ظلم ہے
راز مرا صبر نے افشا کیا
کچھ بھی بن آتی نہیں کیا کیجیے
اس کے بگڑنے نے کچھ ایسا کیا
جائے تھی تیری مرے دل میں سو ہے
غیر سے کیوں شکوۂِ بے جا کیا
رحم فلک اور مرے حال پر
تو نے کرم اے ستم آرا کیا
سچ ہی سہی آپ کا پیماں ولے
مرگ نے کب وعدۂِ فردا کیا
دعوی تکلیف سے جلاد نے
روزِ جزا قتل پھر اپنا کیا
مرگ نے ہجراں میں چھپایا ہے منہ
لو منہ اسی پردہ نشیں کا کیا
دشمن مومنؔ ہی رہے بت سدا
مجھ سے مرے نام نے یہ کیا کیا