نواب مرزا خان، جو داغ دہلوی کے نام سے مشہور ہیں، 25 مئی 1831 کو دہلی کے چاندنی چوک میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نواب شمس الدین احمد خان تھے، جو لوہارو اور فیروز پور جھرکہ کے حکمران تھے۔ داغ دہلوی نے ابتدائی تعلیم دہلی کے لال قلعہ میں حاصل کی جہاں ان کی والدہ مرزا محمد سلطان سے شادی کے بعد منتقل ہو گئی تھیں۔
داغ دہلوی نے ابتدائی عمر میں ہی شاعری شروع کی اور ان کی تربیت مشہور شاعر محمد ابراہیم ذوق کے زیر سایہ ہوئی۔ بعد ازاں، انہوں نے مرزا غالب سے بھی مشورہ لیا۔ داغ دہلوی کا کلام سادہ اور پراثر تھا، جسے عام لوگوں اور اشرافیہ دونوں نے پسند کیا۔
1857 کی جنگ آزادی کے بعد، داغ دہلوی اپنی والدہ کے ساتھ دہلی چھوڑ کر رامپور چلے گئے جہاں نواب یوسف علی خان بہادر کے زیر سایہ رہے۔ یہاں انہوں نے تقریباً 24 سال گزارے۔ بعد میں، وہ لکھنؤ، پٹنہ، کلکتہ، اور حیدرآباد جیسے مقامات پر بھی مقیم رہے۔ 1891 میں، انہیں نظام حیدرآباد کے دربار میں مدعو کیا گیا جہاں انہیں درباری شاعر مقرر کیا گیا۔
داغ دہلوی کی شاعری کا مرکز محبت اور رومانویت تھا۔ ان کا اسلوب سادہ، شگفتہ اور بھرپور جذبات سے لبریز تھا۔ ان کے اہم شعری مجموعے "گلزارِ داغ" (1878)، "مسنوی فریادِ داغ" (1882)، "آفتابِ داغ" (1885)، "مہتابِ داغ" (1893)، اور "یادگارِ داغ" (1905، بعد از وفات) شامل ہیں۔
داغ دہلوی نے اپنی زندگی میں کئی مشکلات اور رومانوی داستانوں کا سامنا کیا۔ ان کی محبت کی کہانیوں میں منی بائی کا قصہ مشہور ہے، جو داغ کی زندگی میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ انہوں نے کبھی شراب نوشی نہیں کی اور ہمیشہ شریعت کی پابندی کی۔
داغ دہلوی کا انتقال 17 مارچ 1905 کو حیدرآباد میں ہوا۔ انہیں دائرہ یوسفین میں دفن کیا گیا۔