مرزا غالب

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
ہوئی مدت کہ غالب مرگیا، پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟
میں، اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تو، اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں
جوں شمع ہم اک سوختہ سامانِ وفا ہیں
اور اس کے سواکچھ نہیں معلوم کہ کیا ہیں
آج ہم اپنی پریشانی خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھئے کیا کہتے ہیں
بیکاری جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی
شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے
ہے موجزن اک قلزمِ خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے
پر ہوں میں شکوے سے یوں، راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
بتائیں ہم تمہارے عارض و کاکل کو کیا سمجھے
اسے ہم سانپ سمجھے اور اسے من سانپ کا سمجھے
چاہیے اچھوں کو ، جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے
بے صرفہ ہی گزرتی ہے ، ہو گرچہ عمرِ خضر
حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا کیا کیے
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنجہائے گرانمایہ کیا کیے

امام بخش ناسخ


انشاء اللہ خان انشا


بہادر شاہ ظفر


حیدر علی آتش


داغ دہلوی

آرزو ہے وفا کرے کوئی
جی نہ چاہے تو کیا کرے کوئی
گر مرض ہو دوا کرے کوئی
مرنے والے کا کیا کرے کوئی
تم سراپا ہو صورت تصویر
تم سے پھر بات کیا کرے کوئی
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کو کیا کرے کوئی
یوں وفا عہدِ وفا کرتے ہیں
آپ کیا کہتے ہیں کیا کرتے ہیں
چلئے عاشق کا جنازہ اٹھا
آپ بیٹھے ہوئے کیا کرتے ہیں
یہ بتاتا نہیں کوئی مجھ کو
دل جو آتا ہے تو کیا کرتے ہیں
روز لیتے ہیں نیا دل دلبر
نہیں معلوم یہ کیا کرتے ہیں
داغؔ تو دیکھ تو کیا ہوتا ہے
جبر پر صبر کیا کرتے ہیں
تجھ کو بد عہد و بے وفا کہیے
ایسے جھوٹے کو اور کیا کہیے
وہ مجھے قتل کر کے کہتے ہیں
مانتا ہی نہ تھا یہ کیا کہیے
تجھ کو اچھا کہا ہے کس کس نے
کہنے والوں کو اور کیا کہیے
بت کو بت اور خدا کو جو خدا کہتے ہیں
ہم بھی دیکھیں تو اسے دیکھ کے کیا کہتے ہیں
ہم تصور میں بھی جو بات ذرا کہتے ہیں
سب میں اڑ جاتی ہے ظالم اسے کیا کہتے ہیں
دردِ دل کا نہ کہیے یا کہیے
جب وہ پوچھے مزاج کیا کہیے
کیا بتاؤں کہ کیا لیا میں نے
کیا کہوں میں کی کیا دیا تو نے
مجھ گنہ گار کو جو بخش دیا
تو جہنم کو کیا دیا تو نے
دل کو کیا ہو گیا خدا جانے
کیوں ہے ایسا اداس کیا جانے
جانتے جانتے ہی جانے گا
مجھ میں کیا ہے ابھی وہ کیا جانے
ہائے دو دل جو کبھی مل کے جدا ہوتے ہیں
نہیں‌معلوم وہ کیا کرتے ہیں‌ کیا ہوتے ہیں

شیخ ابراہیم ذوق


مصحفی غلام ہمدانی


مصطفٰی خان شیفتہ


مومن خان مومن

اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی
ضبط فغاں گو کہ اثر تھا کیا
حوصلہ کیا کیا نہ کیا کیا کیا
دشمن مومنؔ ہی رہے بت سدا
مجھ سے مرے نام نے یہ کیا کیا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
کیوں الجھتے ہو جنبشِ لب سے
خیر ہے میں نے کیا کیا صاحب
ہائے ری چھیڑ رات سن سن کے
حال میرا کہا کہ کیا صاحب
ستم آزار ظلم و جور و جفا
جو کیا سو بھلا کیا صاحب
ضد سے وہ پھر رقیب کے گھر میں چلا گیا
اے رشک میری جان گئی تیرا کیا گیا
شوخ کہتا ہے بے حیا جانا
دیکھو دشمن نے تم کو کیا جانا
شکوہ کرتا ہے بے نیازی کا
تو نے مومنؔ بتوں کو کیا جانا
سنگ اسود نہیں ہے چشمِ بتاں
بوسہ مومنؔ طلب کرے کیا منہ
ناصح یہ گلہ کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
تو کب مری سنتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
مت پوچھ کہ کس واسطے چپ لگ گئی ظالم
بس کیا کہوں میں کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
اثر غم ذرا بتا دینا
وہ بہت پوچھتے ہیں کیا ہے عشق
سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کیونکر یہ کہیں منت اعدا نہ کریں گے
کیا کیا نہ کیا عشق میں کیا کیا نہ کریں گے

میر مہدی مجروح


فیض احمد فیض


مرزا رفیع سودا


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی

ہم چھپائیں گے بھید کیا دل کا
رنگ آنکھوں میں آ گیا دل کا
وہ مقام دل وہ جاں کیا ہو گا
تو جہاں آخری پردا ہو گا
خود سے ہم دور نکل آئے ہیں
تیرے ملنے سے بھی اب کیا ہو گا
تیری ہر بات پہ چپ رہتے ہیں
ہم سا پتھر بھی کیا ہو گا
دل بنا، دوا ہوا
درد کیا سے کیا ہوا
یہ کرم بجا مگر
وہ غرور کیا ہوا
منزلوں رہ گئے پیچھے باقیؔ
وہ گھڑی راہ میں کیا بیٹھے ہیں
وہ نظر بھی نہ دے سکی تسکیں
اے دل بے قرار اب کیا ہو
مدعا خامشی تک آ پہنچا
اب نگاہوں سے بات کیا ہو گی
دور تاروں کی انجمن جیسے
زندگی دیکنے میں کیا کیا ہے
بات کو جرم ناسزا سمجھے
اہلِ غم جانے تجھ کو کیا سمجھے
چھوڑیے بھی اب آئینے کا خیال
دیکھ پائے کوئی تو کیا سمجھے
جنوں کی راکھ سے منزل میں رنگ کیا آئے
متاعِ درد تو ہم راہ میں لٹا آئے
ایسے دل پر بھی کوئی کیا جائے
سامنے ان کے نہ بیٹھا جائے
لاکھ مجبوریاں سہی لیکن
آپ چاہیں تو کیا سے کیا ہو جائے
صبح کا بھید ملا کیا ہم کو
لگ گیا رات کا دھڑکا ہم کو
سیر مانندِ صبا کیجے گا
رہ کے گلشن میں بھی کیا کیجے گا
کس توقع پہ صدا کیجے گا
نہ سنے کوئی تو کیا کیجے گا
دل کی اک شاخ بردہکے سوا
چمنِ دہر میں کیا ہے اپنا
تری نگاہ کا انداز کیا نظر آیا
درخت سے ہمیں سایہ جدا نظر آیا
سنو تو کس لیے پتھر اٹھائے پھرتے ہو
کہو تو آئنہ خانے میں کیا نظر آیا
موج ہاتھ آئے تو دریا مانگیں
دردِ دل مانگ کے پھر کیا مانگیں
دست کوتاہ نہیں دستِ طلب
مانگنے والوں سے ہم کیا مانگیں
سوچتے ہیں سرِ ساحل باقیؔ
یہ سمندر ہمیں کیا دیتے ہیں
گل کے پردے میں ہے کیا معلوم نہیں
شعلہ صر صر ہے کہ صبا معلوم نہیں
گو خموشی نہیں غموں کا علاج
پھر بھی کیا کہتے اور کیا سنتے
ہے موت کا خیال بھی کس درجہ دلخراش
اور صورت حیات بھی کیا کیا ہے سامنے

جون ایلیا


جگر مراد آبادی

ہمیں معلوم ہے ہم سے سنو محشر میں کیا ہو گا
سب اس کو دیکھتے ہوں گے وہ ہم کو دیکھتا ہو گا
سرِ محشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہو گا
درِ جنت نہ وا ہو گا در رحمت تو وا ہو گا
نگاہ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے
نگاہِ مہر عاشق پر اگر ہو گی تو کیا ہو گا
یہ حسن یہ شوخی یہ کرشمہ یہ ادائیں
دنیا نظر آئی مجھے تو کیا نظر آیا
اک سرخوشی عشق ہے اک بے خودی شوق
آنکھوں کو خدا جانے مری کیا نظر آیا
قربان تری شان عنایت کے دل و جاں
اس کم نگہی پر مجھے کیا کیا نظر آیا
ہر حقیقت کو بانداز تماشا دیکھا
خوب دیکھا ترے جلووں کو مگر کیا دیکھا
آئینہ خانۂ عالم میں کہیں کیا دیکھا
تیرے دھوکے میں خود اپنا ہی تماشا دیکھا
دل آگاہ میں کیا کہیے جگرؔ کیا دیکھا
لہریں لیتا ہوا اک قطرے میں دریا دیکھا
میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد
میرے پاس آؤ یہ کیا سامنے ہوں
مری سمت دیکھو یہ کیا جا رہا ہوں
دل کو مٹا کے داغِ تمنا دیا مجھے
اے عشق تیری خیر ہو یہ کیا دیا مجھے

خواجہ میر درد


عبدالحمید عدم


قمر جلالوی


شکیب جلالی


عرفان صدیقی


مجید امجد