میں جو گزرے ہوئے ہنگاموں کا خمیازا ہوں

عرفان صدیقی


دیکھ لے ، آج تری بزم میں بھی تنہا ہوں
میں جو گزرے ہوئے ہنگاموں کا خمیازا ہوں
جانے کیا ٹھان کے اٹھتا ہوں نکلنے کے لیے
جانے کیا سوچ کے دروازے سے لوٹ آتا ہوں
میرے ہر جزو کا ہے مجھ سے الگ ایک وجود
تم مجھے جتنا بگاڑو گے میں بن سکتا ہوں
مجھ میں رقصاں کوئی آسیب ہے آوازوں کا
میں کسی اجڑے ہوئے شہر کا سناٹا ہوں
اپنا ہی چہرہ انہیں مجھ میں دکھائی دے گا
لوگ تصویر سمجھتے ہیں میں آئینہ ہوں
لمحۂ شوق ہوں، میری کوئی قیمت ہی نہیں
میں میسر تجھے آ جاؤں تو مہنگا کیا ہوں
میں جھپٹنے کے لیے ڈھونڈ رہا ہوں موقع
اور وہ شوخ سمجھتا ہے کہ شرماتا ہوں
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست