تماشا کر کہ میں کشکول گنجینے میں رکھتا ہوں

عرفان صدیقی


تجھے پاکر بھی تیری ہی طلب سینے میں رکھتا ہوں
تماشا کر کہ میں کشکول گنجینے میں رکھتا ہوں
اسی رستے سے وہ خورشیدِ فردا گھر میں اترے گا
سو آنکھوں کے دیے اس رات کے زینے میں رکھتا ہوں
مجھے یہ زندگی نقصان کا سودا نہیں لگتی
میں آنے والی دنیا کو بھی تخمینے میں رکھتا ہوں
عزیزو تم سے رازِ خوش نوائی کیا چھپانا ہے
میں دل کے چند ٹکڑے اپنے سازینے میں رکھتا ہوں
مرا رنگِ ہنر تو ایک تصویرِ خیالی ہے
میں اک سادہ سا چہرہ دل کے آئینے میں رکھتا ہوں
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست