عرفان صدیقی 8 جنوری 1939ء کو بدایوں، اتر پردیش، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک علمی اور ادبی خاندان سے تھا۔ ان کے پردادا مولانا محمد انصار حسین حمیدی زلالی بدایونی، دادا مولوی اکرام احمد شاد صدیقی، اور والد مولوی سلمان احمد صدیقی ہلالی بدایونی خود بھی مشہور ادیب اور شاعر تھے۔ ان کے بڑے بھائی نیاز بدایونی بھی شاعر تھے۔
عرفان صدیقی نے ابتدائی تعلیم بدایوں میں اپنے گھر سے حاصل کی اور 1953ء میں کرسچین ہائر سکنڈری اسکول سے میٹرک کیا۔ انہوں نے میسٹن اسلامیہ انٹر کالج بدایوں سے انٹرمیڈیٹ اور بریلی کالج بریلی سے 1957ء میں بی اے اور 1959ء میں ایم اے کیا۔ بعد ازاں انہوں نے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن سے صحافت کا ڈپلوما حاصل کیا۔
عرفان صدیقی نے 1962ء میں حکومت ہند کے محکمہ اطلاعات و نشریات اور وزارت دفاع کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دیں۔ وہ 1998ء میں ڈپٹی پرنسپل انفارمیشن افسر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور لکھنو میں قیام پذیر رہے۔
عرفان صدیقی نے اردو شاعری میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ ان کے پانچ شعری مجموعے "کینوس"، "شبِ درمیاں"، "سات سماوات"، "عشق نامہ"، اور "ہوائے دشت ماریہ" شائع ہوئے۔ ان کی شاعری کی کلیات "دریا" کے نام سے پاکستان میں شائع ہوئی۔ انہوں نے کالی داس کی نظم 'رت سنگھار' اور ڈرامہ 'مالویکا اگنی متر' کا ترجمہ بھی اردو میں کیا۔
عرفان صدیقی کو 1998ء میں اترپردیش کی حکومت نے میر اکادمی کا اعزاز دیا۔
عرفان صدیقی کا انتقال 15 اپریل 2004ء کو لکھنؤ میں ہوا۔ ان کی تدفین ڈالی گنج کے قبرستان میں ہوئی۔