ستم گروں کی مدارات کرتا رہتا ہوں

عرفان صدیقی


انہیں کی شہ سے انہیں مات کرتا رہتا ہوں
ستم گروں کی مدارات کرتا رہتا ہوں
یہاں کوئی نہیں سنتا حدیثِ دل زدگاں
مگر میں اور طرح بات کرتا رہتا ہوں
بھلا یہ عمر کوئی کاروبارِ شوق کی ہے
بس اک تلافیِ مافات کرتا رہتا ہوں
یہ کائنات مرے بال و پر کے بس کی نہیں
تو کیا کروں سفرِ ذات کرتا رہتا ہوں
یہیں پہ وار حریفاں اٹھانا پڑتا ہے
یہیں حسابِ مساوات کرتا رہتا ہوں
عجب نہیں کسی کوشش میں کامراں ہو جائیں
محبتوں کی شروعات کرتا رہتا ہوں
ہمیشہ کاسۂ خالی چھلکتا رہتا ہے
فقیر ہوں سو کرامات کرتا رہتا ہوں
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست