موجِ دریا آب ساحل آشنا ہو جائے گی

یگانہ چنگیزی


اپنی ہستی خود ہم آغوش فنا ہو جائے گی
موجِ دریا آب ساحل آشنا ہو جائے گی
تہ کا اندیشہ رہے گا پھر نہ ساحل کی ہوس
دل سے جب قطع امید بے وفا ہو جائے گی
شب کی شب بزمِ طرب ہے پردہ دار انقلاب
صبح تک آئینۂ عبرت نما ہو جائے گی
جان ایماں ہے ابھی وہ آنکھ شرمائی ہوئی
کیفیت میں ڈوب کر کیا جانے کیا ہو جائے گی
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست