پلٹ کر اک سلامِ شوق کر لیتا ہوں منزل سے

یگانہ چنگیزی


لپٹتی ہے بہت یادِ وطن جب دامنِ دل سے
پلٹ کر اک سلامِ شوق کر لیتا ہوں منزل سے
نظر آئے جب آثار جدائی رنگِ محفل سے
نگاہِ یاس بیگانہ ہوئی یاران یک دل سے
ابھرنے کے نہیں بحر فنا میں ڈوبنے والے
درِ مقصود ہی غم ہے تو پھر کیا کام ساحل سے
تصور لالہ و گل کا خزاں میں بھی نہیں مٹتا
نگاہِ شوق وابستہ ہے اب تک نقشِ باطل سے
نہیں معلوم کیا لذت اٹھائی ہے اسیری میں
دلِ وحشی پھڑک اٹھتا ہے آواز سلاسل سے
کسی شے میں نہ ہو گی بادۂ عرفاں کی گنجائش
لڑا لے ساغرِ جم کو بھی کوئی شیشۂ دل سے
تصور نے دکھایا شاہد مقصود کا جلوہ
اتر آئی ہے لیلیٰ سر زمین دل پہ محمل سے
رہے گی چار دیوارِ عناصر درمیاں کب تک
اٹھے گا زلزلہ اک دن اسی بیٹھے ہوئے دل سے
کہاں تک پردۂ فانوس سے سر کی بلا ٹلتی
ازل سے لاگ تھی بادِ فنا کو شمعِ محفل سے
یہیں سے سیر کر لو یاسؔ اتنی دور کیوں جاؤٔ
عدم آباد کر ڈانڈا ملا ہے کوئے قاتل سے
فہرست