مرزا غالب


امام بخش ناسخ


بہادر شاہ ظفر


حیدر علی آتش


داغ دہلوی

قرینے سے عجب آراستہ قاتل کی محفل ہے
جہاں سر چاہیے سر ہے جہاں دل چاہیے دل ہے
مجھے تجھ سے رکاوٹ اور تو غیروں پہ مائل ہے
مرا دل اب ترا دل ہے ترا دل اب مرا دل ہے
بڑھا دل اس قدر فرطِ خوشی سے وصل کی شب کو
مجھے یہ وہم تھا پہلو میں یہ تکیہ ہے یا دل ہے
زبردستی تو دیکھو ہاتھ رکھ کر میرے سینے پر
وہ کس دعوے سے کہتے ہیں ہمارا ہی تو یہ دل ہے
منتوں سے بھی نہ وہ حور شمائل آیا
کس جگہ آنکھ لڑی ہائے کہاں دل آیا
ہم نہ کہتے تھے نہ کر عشق پشیماں ہو گا
جو کیا تو نے وہ آگے ترے اے دل آیا
دین و دنیا سے گیا تو یہ سمجھ لے اے داغؔ
غضب آیا اگر اس بت پہ ترا دل آیا
بتان ماہ وش اجڑی ہوئی منزل میں رہتے ہیں
کہ جس کی جان جاتی ہے اسی کے دل میں رہتے ہیں
ہزاروں داغ پنہاں عاشقوں کے دل میں رہتے ہیں
شرر پتھر کی صورت ان کی آب و گل میں رہتے ہیں
ہزاروں حسرتیں وہ ہیں کہ روکے سے نہیں رکتیں
بہت ارمان ایسے ہیں کہ دل کے دل میں رہتے ہیں
خدا رکھے محبت نے کیے آباد دونوں گھر
میں ان کے دل میں رہتا ہوں وہ میرے دل میں رہتے ہیں
بتوں کو محرمِ اسرار تو نے کیوں کیا یا رب
کہ یہ کافر ہر اک خلوت سرائے دل میں رہتے ہیں
ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے
مری جاں چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے
جواب اس بات کا اس شوخ کو کیا دے سکے کوئی
جو دل لے کر کہے کم بخت تو کس دل سے ملتا ہے

مصحفی غلام ہمدانی


مصطفٰی خان شیفتہ


مومن خان مومن


فیض احمد فیض


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی


جون ایلیا


جگر مراد آبادی


قمر جلالوی

جا رہے ہیں راہ میں کہتے ہوئے یوں دل سے ہم
تو نہ رہ جانا کہیں اٹھیں اگر محفل سے ہم
وہ سبق آئیں ہیں لے کر اضطرابِ دل سے ہم
یاد رکھیں گے کہ اٹھتے تھے تری محفل سے ہم
وہ نہیں تو اے قمر ان کی نشانی ہی سہی
داغِ فرقت کو لگائے پھر رہے ہیں دل سے ہم
متفق کیونکر ہوں ایسے مشورے پر دل سے ہم
راہبر تو لوٹ لے شکوہ کریں منزل سے ہم
نام تو اپنا چھپا سکتے ہیں لیکن کیا کریں
اے قمر مجبور ہو جاتے ہیں داغِ دل سے ہم
یہ تم نے کیا کہا مجھپر زمانہ ہے فدا دل سے
ہزاروں میں وفا والا ملا کرتا ہے دل سے
نہ تھے جب آپ تو یہ حال تھا بیتابی دل سے
کبھی جاتا تھا محفل میں کبھی آتا تھا محفل سے
نگاہیں ان کو دیکھیں دیکھ کر یہ کہہ دیا دل سے
جو تو بیٹھا تو فتنے سینکڑوں اٹھیں گے محفل سے
دلوں میں آ گئے جب فرق تو جاتے نہیں دل سے
کہ یہ ٹوٹے ہوئے شیشے جڑا کرتے ہیں مشکل سے
دونوں ہیں ان کے ہجر کا حاصل لیے ہوئے
دل کو ہے درد، درد کو ہے دل لیے ہوئے
دیکھ ہمارے صبر کی ہمت نہ ٹوٹ جائے
تم رات دن ستاؤ مگر دل لیے ہوئے
اپنی ضروریات ہیں اپنی ضروریات
آنا پڑا مطلب تمہیں دل لیے ہوئے

عرفان صدیقی


احسان دانش

قدر کر دل کی کہ درگاہ خدا میں اے ندیم
دو جہاں کی نعمتیں حاضر ہیں لیکن دل نہیں
آنکھ میں آنسو ہیں احساس مسرت دل میں ہے
ایک فردوس نظارہ آپ کی محفل میں ہے
ہر جفا تیری مناسب ہر ستم تیرا درست
اب وہی میری تمنا ہے جو تیرے دل میں ہے
فصلِ گل میں بے تحاشا ہنسنے والو ہوشیار
اضطرابِ دل کا پہلو بھی سکونِ دل میں ہے
دہر کے ہنگامۂ شیخ و برہمن سے بلند
اور بھی ہنگامہ اک گرداب نوح دل میں ہے
میں تو خود اٹھنے کو ہوں بدلو نہ اندازِ نظر
تم جو کہتے ہچکچاتے ہو وہ میرے دل میں ہے
موم کر دیتی ہے جو فولاد و آہن کا جگر
وہ بھی اک جھنکار آوازِ شکستِ دل میں ہے
کون ہے احسانؔ میری زندگی کا رازدار
کیا کہوں کس طرح مرنے کی تمنا دل میں ہے
مجھے پوچھا ہے آ کر تم نے اس اخلاق کامل سے
کہ میں شرمندہ ہو کر رہ گیا اندازۂ دل سے
نظر کے رخ کو یا تو دل کی جانب پھیر لینے دو
نہیں تو سامنے آ جاؤٔ اٹھ کر پردۂ دل سے
انہیں دنیا اب اشکِ غم کہے یا خون کی بوندیں
محبت نے چراغ آنکھوں میں لا کر رکھ دیے دل سے
ترا جلوہ تو کیا تو خود بھی تفریحِ نظر ہوتا
مری آنکھوں نے اب تک بھیک مانگی ہی نہیں دل سے
ستم کی آخری منزل پہ اظہار پشیمانی
نکل آتے ہیں آنسو یوں تو ہر دکھتے ہوئے دل سے
تہیہ کر لیا تنگ آ کے گو ترکِ تعلق کا
مگر اب فکر ہے یہ خط انہیں لکھیں گے کس دل سے
ضبط بھی صبر بھی امکان میں سب کچھ ہے مگر
پہلے کمبخت مرا دل تو مرا دل ہو جائے
کامراں ہے وہ محبت جو بنے روح گداز
دردِ دل حد سے گزر جائے تو خود دل ہو جائے
جلا ہے ہائے کس جان چمن کی شمعِ محفل سے
مہک پھولوں کی آتی ہے شرار آتشِ دل سے
ٹھہر بھی اے خیال حشر اور اک جام پینے دے
سرکتا ہے ابھی ظلمت کا پردہ خانۂ دل سے
ہے اس کمبخت کو ضد سوز باطن سے پگھل جاؤں
نگاہوں نے تمہاری کہہ دیا ہے کیا مرے دل سے
سپردِ بیخودی کر دے فرائض عقل خود بیں کے
ہٹا دے اس سیہ باطن کا پہرا خانۂ دل سے
ہزاروں غم ہیں اس منزل میں منزل دیکھنے والے
کلیجا تھام لے اپنا مرا دل دیکھنے والے
ہر اک ذرے میں پوشیدہ ہے اک طغیان مدہوشی
سنبھل کر دیکھنا پیمانۂ دل دیکھنے والے

اسرار الحق مجاز


بہزاد لکھنوی


عالم تاب تشنہ


علی سردار جعفری