بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے

مرزا غالب


سادگی پر اس کی، مر جانے کی حسرتِ دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
بس ہجومِ نا امیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذت ہماری سعیِ بے حاصل میں ہے
رنجِ رہ کیوں کھینچیے ؟ واماندگی کو عشق ہے
اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے
جلوہ زار آتش دوزخ ہمارا دل سہی
فتنۂِ شورِ قیامت کس کی آب و گل میں ہے
ہے دلِ شوریدۂِ غالب طلسمِ پیچ و تاب
رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست