غزل سرا
ہماری کتابیں
شعراء
رابطہ
اکاؤنٹ
رجسٹر
لاگ اِن
غزل سرا کے بارے میں
تلاش
مرزا غالب
جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لیے ہوئے
ہوں شمعِ کشتہ درخورِ محفل نہیں رہا
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
بہادر شاہ ظفر
گو وہ محفل میں نہ بولا پا گئے چتون سے ہم
آج کچھ اس رونقِ محفل کے دل میں اور ہے
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
مان اے ظفرؔ تو پنج تن و چار یار کو
ہیں صدر دین کی یہی محفل کے چار پانچ
حیدر علی آتش
کون سی راحتِ جاں کی ہیں یہ آنکھیں مشتاق
کر کے اندھیر ہے وہ رونقِ محفل جاتا
داغ دہلوی
قرینے سے عجب آراستہ قاتل کی محفل ہے
جہاں سر چاہیے سر ہے جہاں دل چاہیے دل ہے
ہمارے دل میں آ کر سیر دیکھو خوب رویوں کی
کہ اندر کا اکھاڑا ہے پری زادوں کی محفل ہے
قہقہے قلقل مینا نے لگائے کیا کیا
مجھ کو مستی میں جو رونا سرِ محفل آیا
ہمارے سائے سے بچتا ہے ہر اک بزم میں اس کی
ہمیں دیکھو کہ ہم تنہا بھری محفل میں رہتے ہیں
بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں ہنر اے مجمع خوبی
ملاقاتی ترا گویا بھری محفل سے ملتا ہے
مصطفٰی خان شیفتہ
اس کے اٹھتے ہی یہ ہلچل پڑ گئی بس بزم میں
طور روزِ حشر سب کو طورِ محفل ہو گیا
فیض احمد فیض
شمعِ نظر، خیال کے انجم، جگر کے داغ
جتنے چراغ ہیں، تری محفل سے آئے ہیں
کوئی دم بادبانِ کشتیِ صہبا کو تہہ رکھو
ذرا ٹھہرو غبارِ خاطر محفل ٹھہر جائے
یگانہ چنگیزی
نظر آئے جب آثار جدائی رنگِ محفل سے
نگاہِ یاس بیگانہ ہوئی یاران یک دل سے
کہاں تک پردۂ فانوس سے سر کی بلا ٹلتی
ازل سے لاگ تھی بادِ فنا کو شمعِ محفل سے
اداسی چھا گئی چہرے پہ شمعِ محفل کے
نسیمِ صبح سے شعلے بھڑک اٹھے دل کے
باقی صدیقی
جانے کیا دل کو ہوا ہے باقیؔ
جی نہیں لگتا کسی محفل میں
دیکھ کر رنگ تیری محفل کے
زخم آنکھوں میں آ گئے دل کے
اور اک دل نواز انگڑائی
راز کھلنے لگے ہیں محفل کے
جون ایلیا
گر دل کی یہ محفل ہے خرچہ بھی ہو پھر دل کا
باہر سے تو سامان محفل نہیں آنے کا
جگر مراد آبادی
یوں تڑپ کر دل نے تڑپایا سرِ محفل مجھے
اس کو قاتل کہنے والے کہہ اٹھے قاتل مجھے
میں ازل سے صبح محشر تک فروزاں ہی رہا
حسن سمجھا تھا چراغ کشتۂ محفل مجھے
نگاہوں میں کچھ ایسے بس گئے ہیں حسن کے جلوے
کوئی محفل ہو لیکن ہم تری محفل سمجھتے ہیں
قمر جلالوی
جا رہے ہیں راہ میں کہتے ہوئے یوں دل سے ہم
تو نہ رہ جانا کہیں اٹھیں اگر محفل سے ہم
وہ سبق آئیں ہیں لے کر اضطرابِ دل سے ہم
یاد رکھیں گے کہ اٹھتے تھے تری محفل سے ہم
لاکھ کوشش کی مگر پھر بھی نکل کر ہی رہے
گھر سے یوسفؑ خلد سے آدمؑ تری محفل سے ہم
شام کی باتیں سحر تک خواب میں دیکھا کیے
جیسے سچ مچ اٹھ رہے ہیں آپ کی محفل سے ہم
شمع گل کر دینے والے ہو گئی روشن یہ بات
ٹھوکریں کھاتے ہوئے نکلیں تری محفل سے ہم
رسمِ حسن و عشق میں ہوتی ہیں کیا پابندیاں
آپ پوچھیں شمع سے پروانۂ محفل سے ہم
یہ کہہ دے دل کی مجبوری ہمیں اٹھنے نہیں دیتی
اشارے ورنہ ہم اے بانیِ محفل سمجھتے ہیں
تعلق جب نہیں ہے آپ کی محفل میں کیوں آؤں
مجھے سرکار کیا پروانۂ محفل سمجھتے ہیں
تو اپنی خوشی کا مالک ہے ، کیا تاب کسی کی اف جو کرے
محفل کو بنا دے ویرانہ ویرانے کو بنا دے محفل کر دے
نہ تھے جب آپ تو یہ حال تھا بیتابی دل سے
کبھی جاتا تھا محفل میں کبھی آتا تھا محفل سے
نگاہیں ان کو دیکھیں دیکھ کر یہ کہہ دیا دل سے
جو تو بیٹھا تو فتنے سینکڑوں اٹھیں گے محفل سے
نہ ہو بیزار مجھ سے یکھ لینا ورنہ اے دنیا
نہ آؤں گا کبھی ایسا اٹھوں گا تیری محفل سے
غلط ہے شیخ کی ضد ساقی محفل سے ٹوٹے گی
قسم کھائی ہوئی توبہ بڑی مشکل سے ٹوٹے گی
وہ شب بھی یاد ہے کہ میں پہنچا تھا بزم میں!
اور تم اٹھے تھے رونقِ محفل لیے ہوئے
احسان دانش
ہے تصور عشرت ماضی کا آئینہ بدست
دل وہی دل ہے مگر وہ گرمی محفل نہیں
آنکھ میں آنسو ہیں احساس مسرت دل میں ہے
ایک فردوس نظارہ آپ کی محفل میں ہے
امیدیں اٹھ رہی ہیں سیکڑوں امیدواروں کی
میں تنہا ہوں مگر تنہا نہیں اٹھوں گا محفل سے
ابھی تو شام ہے آغاز ہے پروانہ سوزی کا
کوئی اس شمع کو آگاہ کر دو صبح محفل سے
مٹانے سے کبھی نقشِ محبت مٹ نہیں سکتا
مرا افسانہ نکلے گا تری روداد محفل سے
میں اک ذرہ ہوں لیکن وسعتِ صحرا سے واقف ہوں
اٹھا سکتا نہیں خود میرِ محفل مجھ کو محفل سے
محفل دوست میں چلتا تو ہوں اے دیدۂ شوق
عشق کا راز نہ افسانۂ محفل ہو جائے
جلا ہے ہائے کس جان چمن کی شمعِ محفل سے
مہک پھولوں کی آتی ہے شرار آتشِ دل سے
یہ دامان حوادث سے قیامت تک نہ گل ہو گا
چراغِ دل مرا روشن ہے ان کی شمعِ محفل سے
سحر نے لے کے انگڑائی طلسم ناز شب توڑا
فلک پر حسن کی شمعیں اٹھیں تاروں کی محفل سے
مری بالیں سے اٹھ کر رونے والو یہ بھی سوچا ہے
چلا ہوں کس کی محفل میں اٹھا ہوں کس کی محفل سے
مری بے باک نظریں ان کی جانب اٹھ ہی جاتی ہیں
ابھی احسانؔ میں واقف نہیں آدابِ محفل سے
تیرے دل میں ہزاروں محفلیں جلووں کی پنہاں ہیں
فلک پر انجم تاباں کی محفل دیکھنے والے
اسرار الحق مجاز
مرے ہاتھوں میں بھی ہے ساز لیکن
ابھی میں رنگِ محفل دیکھتا ہوں
بہزاد لکھنوی
اے دل کی لگی چل یوں ہی سہی چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے
یوں تو جو چاہے یہاں صاحب محفل ہو جائے
بزم اس شخص کی ہے تو جسے حاصل ہو جائے
پھیکا پھیکا ہے مری بزم محبت کا چراغ
تم جو آ جاؤ تو کچھ رونقِ محفل ہو جائے
علی سردار جعفری
ہم نے دنیا کی ہر اک شے سے اٹھایا دل کو
لیکن ایک شوخ کے ہنگامۂ محفل کے سوا
ان کی نظروں کے سوا سب کی نگاہیں اٹھیں
محفلِ یار میں بھی زینت محفل رہیے