مرزا غالب


بہادر شاہ ظفر


حیدر علی آتش


داغ دہلوی


مصطفٰی خان شیفتہ


فیض احمد فیض


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی


جون ایلیا


جگر مراد آبادی


قمر جلالوی

جا رہے ہیں راہ میں کہتے ہوئے یوں دل سے ہم
تو نہ رہ جانا کہیں اٹھیں اگر محفل سے ہم
وہ سبق آئیں ہیں لے کر اضطرابِ دل سے ہم
یاد رکھیں گے کہ اٹھتے تھے تری محفل سے ہم
لاکھ کوشش کی مگر پھر بھی نکل کر ہی رہے
گھر سے یوسفؑ خلد سے آدمؑ تری محفل سے ہم
شام کی باتیں سحر تک خواب میں دیکھا کیے
جیسے سچ مچ اٹھ رہے ہیں آپ کی محفل سے ہم
شمع گل کر دینے والے ہو گئی روشن یہ بات
ٹھوکریں کھاتے ہوئے نکلیں تری محفل سے ہم
رسمِ حسن و عشق میں ہوتی ہیں کیا پابندیاں
آپ پوچھیں شمع سے پروانۂ محفل سے ہم
یہ کہہ دے دل کی مجبوری ہمیں اٹھنے نہیں دیتی
اشارے ورنہ ہم اے بانیِ محفل سمجھتے ہیں
تعلق جب نہیں ہے آپ کی محفل میں کیوں آؤں
مجھے سرکار کیا پروانۂ محفل سمجھتے ہیں
تو اپنی خوشی کا مالک ہے ، کیا تاب کسی کی اف جو کرے
محفل کو بنا دے ویرانہ ویرانے کو بنا دے محفل کر دے
نہ تھے جب آپ تو یہ حال تھا بیتابی دل سے
کبھی جاتا تھا محفل میں کبھی آتا تھا محفل سے
نگاہیں ان کو دیکھیں دیکھ کر یہ کہہ دیا دل سے
جو تو بیٹھا تو فتنے سینکڑوں اٹھیں گے محفل سے
نہ ہو بیزار مجھ سے یکھ لینا ورنہ اے دنیا
نہ آؤں گا کبھی ایسا اٹھوں گا تیری محفل سے
غلط ہے شیخ کی ضد ساقی محفل سے ٹوٹے گی
قسم کھائی ہوئی توبہ بڑی مشکل سے ٹوٹے گی
وہ شب بھی یاد ہے کہ میں پہنچا تھا بزم میں!
اور تم اٹھے تھے رونقِ محفل لیے ہوئے

احسان دانش

ہے تصور عشرت ماضی کا آئینہ بدست
دل وہی دل ہے مگر وہ گرمی محفل نہیں
آنکھ میں آنسو ہیں احساس مسرت دل میں ہے
ایک فردوس نظارہ آپ کی محفل میں ہے
امیدیں اٹھ رہی ہیں سیکڑوں امیدواروں کی
میں تنہا ہوں مگر تنہا نہیں اٹھوں گا محفل سے
ابھی تو شام ہے آغاز ہے پروانہ سوزی کا
کوئی اس شمع کو آگاہ کر دو صبح‌‌ محفل سے
مٹانے سے کبھی نقشِ محبت مٹ نہیں سکتا
مرا افسانہ نکلے گا تری روداد محفل سے
میں اک ذرہ ہوں لیکن وسعتِ صحرا سے واقف ہوں
اٹھا سکتا نہیں خود میرِ محفل مجھ کو محفل سے
محفل دوست میں چلتا تو ہوں اے دیدۂ شوق
عشق کا راز نہ افسانۂ محفل ہو جائے
جلا ہے ہائے کس جان چمن کی شمعِ محفل سے
مہک پھولوں کی آتی ہے شرار آتشِ دل سے
یہ دامان حوادث سے قیامت تک نہ گل ہو گا
چراغِ دل مرا روشن ہے ان کی شمعِ محفل سے
سحر نے لے کے انگڑائی طلسم ناز شب توڑا
فلک پر حسن کی شمعیں اٹھیں تاروں کی محفل سے
مری بالیں سے اٹھ کر رونے والو یہ بھی سوچا ہے
چلا ہوں کس کی محفل میں اٹھا ہوں کس کی محفل سے
مری بے باک نظریں ان کی جانب اٹھ ہی جاتی ہیں
ابھی احسانؔ میں واقف نہیں آدابِ محفل سے
تیرے دل میں ہزاروں محفلیں جلووں کی پنہاں ہیں
فلک پر انجم تاباں کی محفل دیکھنے والے

اسرار الحق مجاز


بہزاد لکھنوی


علی سردار جعفری