زبانِ حال رکھتے ہیں زبان دل سمجھتے ہیں

جگر مراد آبادی


یہ ذرے جن کو ہم خاکِ رہِ منزل سمجھتے ہیں
زبانِ حال رکھتے ہیں زبان دل سمجھتے ہیں
جسے سب لوگ حسن و عشق کی منزل سمجھتے ہیں
بلند اس سے بھی ہم اپنا مقام دل سمجھتے ہیں
حقیقت میں جو راز دوریِ منزل سمجھتے ہیں
انہیں کو ہم سلوک عشق میں کامل سمجھتے ہیں
ہمیں کیوں وہ جفائے خاص کے قابل سمجھتے ہیں
یہ رازِ دل ہے اس کو محرمان دل سمجھتے ہیں
اسی اک جرم پر اغیار میں برپا قیامت ہے
کہ ہم بیدار ہیں اور اپنا مستقبل سمجھتے ہیں
نگاہوں میں کچھ ایسے بس گئے ہیں حسن کے جلوے
کوئی محفل ہو لیکن ہم تری محفل سمجھتے ہیں
کوئی مانے نہ مانے اس کو لیکن یہ حقیقت ہے
ہم اپنی زندگی میں غیب کو شامل سمجھتے ہیں
یہ نرم و ناتواں موجیں خودی کا راز کیا جانیں
قدم لیتے ہیں طوفاں عظمت ساحل سمجھتے ہیں
حکومت کے مظالم جب سے ان آنکھوں نے دیکھے ہیں
جگرؔ ہم بمبئی کو کوچۂ قاتل سمجھتے ہیں
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست