جگر مراد آبادی، جن کا اصل نام علی سکندر تھا، 6 اپریل 1890 کو مراد آباد، اتر پردیش، برٹش انڈیا (موجودہ بھارت) میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک مشہور اردو شاعر تھے جنہوں نے اپنی غزلوں سے شہرت حاصل کی۔ ان کے والد کا نام سید علی نظر تھا جو خود بھی ایک شاعر تھے۔
جگر مراد آبادی نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن انہوں نے فارسی اور اردو زبان کی تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے انگریزی کی تعلیم بھی حاصل کی۔ انہیں ابتدائی شاعری کے اسباق اپنے والد سے ملے اور بعد میں انہوں نے داغ دہلوی اور اصغر گونڈوی جیسے مشہور شاعروں سے مشورہ لیا۔
جگر مراد آبادی کی شاعری میں عشق اور شراب کے موضوعات کو منفرد انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی پہلی کتاب "داغ جگر" 1928 میں شائع کی اور بعد میں "شعلہ طور" 1932 میں اور "آتش گل" 1954 میں شائع کی۔ "آتش گل" کے لیے انہیں 1958 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
جگر مراد آبادی ایک خوش مزاج اور سماجی شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ گونڈا میں گزارا، جہاں ان کے دوست اور مشہور شاعر اصغر گونڈوی بھی مقیم تھے۔ زندگی کے آخری حصے میں انہوں نے شراب نوشی چھوڑ دی اور مذہبی زندگی اختیار کر لی۔
جگر مراد آبادی کی شاعری نے اردو ادب کو ایک نیا رنگ دیا اور وہ آج بھی غزل کے ستونوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری میں عشق، فلسفہ، اور زندگی کی پیچیدگیوں کی عکاسی ملتی ہے۔ ان کے مشہور اشعار میں "یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے، ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے" شامل ہیں۔
جگر مراد آبادی کا انتقال 9 ستمبر 1960 کو گونڈا، اتر پردیش میں ہوا۔ ان کی وفات کے بعد بھی ان کی شاعری لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے اور وہ آج بھی محبت اور عشق کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔