مرزا غالب


بہادر شاہ ظفر


داغ دہلوی


مصحفی غلام ہمدانی


فیض احمد فیض


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی


جگر مراد آبادی


قمر جلالوی

اب نہ آوازِ جرس ہے اور نہ گردِ کارواں
یا تو منزل رہ گئی یا رہ گئے منزل سے ہم
شکریہ اے قمر تک پہنچانے والو شکریہ
اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم
متفق کیونکر ہوں ایسے مشورے پر دل سے ہم
راہبر تو لوٹ لے شکوہ کریں منزل سے ہم
راہبر کا ہو بھلا پہلے ہی گھر لٹو دیے
لوٹ کر جائیں تو جائیں بھی کہاں منزل سے ہم
ہماری وضع داری ہے جو ہم خاموش ہیں ورنہ
یہ رہزن ہی جنہیں ہم رہبرِ منزل سمجھتے ہیں
اس رہروِ راہِ الفت کو دیکھے کوئی شام کے عالم میں
جب اٹھ کے غبارِ راہگذر نظروں سے نہاں منزل کر دے
گر ذوقِ طلب ہی دیکھنا ہے منظور تجھے دیوانے کا
ہر نقش بنے زنجیرِ قدم اتنی تو کڑی منزل کر دے
بگولا جب اٹھا میں راہ گم کردہ یہی سمجھا
کوئی رستہ بتانے آ رہا ہے مجھ کو منزل سے
ہم اہلِ عشق آساں عشق کی منزل سمجھتے ہیں
نہ جب مشکل سمجھتے تھے نہ اب شکل سمجھتے ہیں
تمھیں رستے میں رہبر چھوڑ دیں گے قافلے والو
اگر ہمت تمھاری دوریِ منزل سے ٹوٹے گی
بیٹھا جو دل تو چاند دکھا کر کہا قمر!
وہ سامنے چراغ ہے منزل لیے ہوئے