رہ جائے جیسے کوئی بسمل تڑپ تڑپ کر

مصحفی غلام ہمدانی


پہلو میں رہ گیا یوں یہ دل تڑپ تڑپ کر
رہ جائے جیسے کوئی بسمل تڑپ تڑپ کر
مجنون بے خرد نے دی جاں بہ ناامیدی
لیلیٰ کا دیکھتے ہی محمل تڑپ تڑپ کر
کہیو صبا جو جاوے مذبوح غم نے تیرے
آسان کی شب اپنی مشکل تڑپ تڑپ کر
اس پردگی نے اپنا آنچل نہیں دکھایا
مر مر گئے ہیں اس کے مائل تڑپ تڑپ کر
قاتل کا میرے کوچہ ہے خواب گاہ راحت
کیا کیا نہ سو رہے یاں گھائل تڑپ تڑپ کر
حال اس غریق کا ہے جائے ترحم اے دل
رہ جائے ہے جو زیر ساحل تڑپ تڑپ کر
قابو میں آئے پر میں چھوڑا نہ اس کو ہرگز
بل کھا کے گرچہ نکلا قاتل تڑپ تڑپ کر
تو نے تو آبرو ہی کھو دی ہماری اے دل
مقتل میں عاشقوں کے شامل تڑپ تڑپ کر
جھمکے دکھا کے اس کو تو نے جو منہ دکھایا
مر ہی گیا نہ تیرا سائل تڑپ تڑپ کر
گو مرغ نامہ بر کو بسمل کیا ہے اس نے
طے کر رہے گا آخر منزل تڑپ تڑپ کر
فرقت میں اس کی تو نے اے مصحفیؔ بتا تو
جز اشکِ خوں کیا کیا حاصل تڑپ تڑپ کر
مجھ کو یہ سوجھتا ہے ناحق تو جان دے گا
اک دن اسی طرح سے جاہل تڑپ تڑپ کر
مفعول فاعِلاتن مفعول فاعِلاتن
مضارع مثمن اخرب
فہرست