غزل سرا
ہماری کتابیں
شعراء
رابطہ
اکاؤنٹ
رجسٹر
لاگ اِن
غزل سرا کے بارے میں
تلاش
مرزا غالب
شمار سبحہ، ’’مرغوبِ بتِ مشکل‘‘ پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بردنِ صد دل، پسند آیا
بہ فیضِ بے دلی، نومیدی جاوید آساں ہے
کشائش کو ہمارا عقدۂِ مشکل پسند آیا
ہجومِ غم سے یاں تک سر نگونی مجھ کو حاصل ہے
کہ تارِ دامن و تارِ نظر میں فرق مشکل ہے
ہے دلِ شوریدۂِ غالب طلسمِ پیچ و تاب
رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے
بہادر شاہ ظفر
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
حیدر علی آتش
رخ کے ہوتے ہوے ڈھونڈا نہ دہن کا مضمون
سہل کو چھوڑ کے کیوں جانب مشکل جاتا
داغ دہلوی
ہر اک کے واسطے کب عشق کی دشوار منزل ہے
جسے آساں ہے آساں ہے جسے مشکل ہے مشکل ہے
انہیں جب مہرباں پا کر سوالِ وصل کر بیٹھا
دبی آواز سے شرما کے وہ بولے یہ مشکل ہے
طریق عشق کچھ آسان ہے کچھ ہم کو مشکل ہے
ادھر رہبر ادھر رہزن یہی منزل بمنزل ہے
تن آسانی کہاں تقدیر میں ہم دل گرفتوں کی
خدا پر خوب روشن ہے کہ جس مشکل میں رہتے ہیں
ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے
مری جاں چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے
مصحفی غلام ہمدانی
حیران ہیں ہم اس کے معمائے دہن میں
کیوں کر کھلے یہ عقدۂِ مشکل نہیں معلوم
ہے ان دنوں مری آواز میں یہاں تک ضعف
کہ اپنے ساتھ بھی مشکل سے بات کرتا ہوں
کہیو صبا جو جاوے مذبوح غم نے تیرے
آسان کی شب اپنی مشکل تڑپ تڑپ کر
یگانہ چنگیزی
جو دل نہیں رکھتا کوئی مشکل نہیں رکھتا
مشکل نہیں رکھتا کوئی جو دل نہیں رکھتا
باقی صدیقی
سوچتا کچھ ہے تو کرتا کچھ ہے
آدمی ہوتی ہے جب مشکل میں
قمر جلالوی
جور میں رازِ کرم طرزِ کرم میں رازِ جور
آپ کی نظروں کو سمجھے ہیں بڑی مشکل سے ہم
یہ نہیں کہتے کہ دولت رات میں لٹ جائے گی
ہم پہ احساں ہے کہ سوتے ہیں بڑی مشکل سے ہم
ہم اس مشکل سے بچنا ناخدا مشکل سمجھتے ہیں
ادھر طوفان ہوتا ہے جدھر ساحل سمجھتے ہیں
خشکی و تری پر قادر ہے آسان مری مشکل کر دے
ساحل کی طرف کشتی نہ سہی کشتی کی طرف ساحل کر دے
دلوں میں آ گئے جب فرق تو جاتے نہیں دل سے
کہ یہ ٹوٹے ہوئے شیشے جڑا کرتے ہیں مشکل سے
چمن مل جائے گا اہلِ چمن مل جائیں گے چھٹ کر
مگر تنکے نشیمن کے ملیں گے مجھ کو مشکل سے
ہماری کچھ نہ پوچھو ہم بری تقدیر والے ہیں
کہ جیتے ہیں تو مشکل سے جو مرتے ہیں تو مشکل سے
غلط ہے شیخ کی ضد ساقی محفل سے ٹوٹے گی
قسم کھائی ہوئی توبہ بڑی مشکل سے ٹوٹے گی
عرفان صدیقی
کس کو دیں قتل کا الزام بڑی مشکل ہے
جو بھی قاتل ہے ہماری ہی طرح بسمل ہے
احسان دانش
ضبط نالہ، ضبطِ گریہ، ضبط الفت، ضبطِ شوق
کس طرح کہہ دوں کہ یہ آسانیاں مشکل نہیں
جس کو دوری سے حضوری میں سوا ہو اضطراب
وہ پریشان محبت کس قدر مشکل میں ہے
اب اس ننگ محبت سے کنارہ بھی تو مشکل ہے
مجھے جس کی محبت کا یقیں آیا تھا مشکل سے
غنیمت ہے نظر روشن ہے دل اب تک دھڑکتا ہے
محبت میں تو یہ آسانیاں ملتی ہیں مشکل سے
ہائے یہ جوشِ تمنا یہ نگوں سارئی عشق
وہ جو ایسے میں چلے آئیں تو مشکل ہو جائے
آہ اس عاشقِ ناشاد کا جینا اے دوست
جس کو مرنا بھی ترے عشق میں مشکل ہو جائے
بہزاد لکھنوی
ہاں یاد مجھے تم کر لینا آواز مجھے تم دے لینا
اس راہِ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے
اب کیوں ڈھونڈوں وہ چشمِ کرم ہونے دے ستم بالائے ستم
میں چاہتا ہوں اے جذبۂ غم مشکل پس مشکل آ جائے