جو بھی قاتل ہے ہماری ہی طرح بسمل ہے

عرفان صدیقی


کس کو دیں قتل کا الزام بڑی مشکل ہے
جو بھی قاتل ہے ہماری ہی طرح بسمل ہے
تیز دھاروں نے حدیں توڑ کے رکھ دیں ساری
اب یہ عالم کہ جو دریا ہے ، وہی ساحل ہے
جو اکیلے میں جلوسوں کا اڑاتا ہے مذاق
وہ بھی اس بھیڑ میں اوروں کی طرح شامل ہے
اتنی امید نہ آتے ہوئے برسوں سے لگاؤ
حال بھی تو کسی ماضی ہی کا مستقبل ہے
شوق دونوں کو ہے ملنے کا، مگر رستے میں
ایک پندار کی دیوارِ گراں حائل ہے
زہرۂ فکر کم آمیز بہت ہے ، عرفانؔ
کم سے کم اس کا تعارف تو تمہیں حاصل ہے
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست