جب اس کے شکل و شمائل سے بات کرتا ہوں

مصحفی غلام ہمدانی


میں پہروں گھر میں پڑا دل سے بات کرتا ہوں
جب اس کے شکل و شمائل سے بات کرتا ہوں
بہ وقت ذبح بھی ہلتے رہیں ہیں لب میرے
ز بسکہ خنجرِ قاتل سے بات کرتا ہوں
مری زباں کو مرا ہم نوا ہی سمجھے ہے
میں نیم ذبح ہوں بسمل سے بات کرتا ہوں
نہ ناقہ اور نہ محمل رہا میں سودائی
ہنوز ناقہ و محمل سے بات کرتا ہوں
ہے ان دنوں مری آواز میں یہاں تک ضعف
کہ اپنے ساتھ بھی مشکل سے بات کرتا ہوں
سمجھ نہ موج مرے منہ میں ہیں ہزاروں زباں
میں بحر ہوں لبِ ساحل سے بات کرتا ہوں
مزہ ملے ہے مجھے اس کی ہم کلامی کا
میں اس کے در کے جو سائل سے بات کرتا ہوں
بہ وقت آئینہ دیدن بلاؤں میں تو کہے
میں اپنے عاشق مائل سے بات کرتا ہوں
جو مصحفیؔ کی سفارش کریں تو بولے وہ شوخ
میں ایسے ننگ قبائل سے بات کرتا ہوں
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست