مشکل نہیں رکھتا کوئی جو دل نہیں رکھتا

یگانہ چنگیزی


جو دل نہیں رکھتا کوئی مشکل نہیں رکھتا
مشکل نہیں رکھتا کوئی جو دل نہیں رکھتا
کھینچے لیے جاتا ہے کہیں شوقِ شہادت
دم لینے کی تاب اب دل بسمل نہیں رکھتا
ہوں ریگ کے مانند شب و روز سفر میں
آوارہ وحشت کوئی منزل نہیں رکھتا
مجبور ہوں کیا زور چلے جوش جنوں سے
زنجیر کوئی پاؤں کے قابل نہیں رکھتا
کعبے سے ہو یا دیر سے منزل پہ پہنچ جاؤں
اک دھن ہے تمیز حق و باطل نہیں رکھتا
مے خانے کو دیکھے کوئی ان آنکھوں سے غافل
اک نور کا دریا ہے کہ ساحل نہیں رکھتا
کوثر بھی کھنچ آئے تو یہ نیت نہیں بھرتی
دریائے ہوس وہ ہے کہ ساحل نہیں رکھتا
آیا نہ کوئی خواب میں بھی ملکِ عدم سے
افسوس کہ اتنی بھی کشش دل نہیں رکھتا
لیلیٰ کو بھلا دیکھے گا کن آنکھوں سے مجنوں
جب طاقت نظارۂ محمل نہیں رکھتا
کیوں یاسؔ قفس میں بھی وہی زمزمہ سنجی
ایسا تو زمانے میں کوئی دل نہیں رکھتا
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست