ہے بادیہ ریگ اور ہمیں منزل نہیں معلوم

مصحفی غلام ہمدانی


کس راہ گیا لیلیٰ کا محمل نہیں معلوم
ہے بادیہ ریگ اور ہمیں منزل نہیں معلوم
میں حشر کے دن دعویٰ خوں کس سے کروں گا
وہ کشتہ ہوں جس کشتہ کا قاتل نہیں معلوم
نکلیں ہیں مرے دل کے تڑپنے میں ادائیں
ہے کس کی نگاہوں کا یہ بسمل نہیں معلوم
تھا روئے دل خستہ تو شب میری طرف کو
کب ہو گیا مژگاں کے مقابل نہیں معلوم
وہ بحر ہے دریائے سرشک اپنا کہ جس کا
پہنا ہی نظر آوے ہے ساحل نہیں معلوم
مر جاؤں کہ جیتا رہوں میں ہجر میں تیرے
کس چیز کا خواہاں ہے مرا دل نہیں معلوم
آنکھوں سے گزارا ہے جو یوں لختِ جگر کا
آتے ہیں چلے کس کے یہ گھائل نہیں معلوم
کیا جانیے کیا اس میں تری آنکھوں نے دیکھا
کیوں ہو گئیں آئینے کی مائل نہیں معلوم
اے مصحفیؔ افسوس کہ اس ہستی پہ ہم کو
تحصیل وفاداری کا حاصل نہیں معلوم
فہرست