دل کو ہے درد، درد کو ہے دل لیے ہوئے

قمر جلالوی


دونوں ہیں ان کے ہجر کا حاصل لیے ہوئے
دل کو ہے درد، درد کو ہے دل لیے ہوئے
دیکھا خدا پہ چھوڑ کہ کشتی کو نا خدا
جیسے خود آ گیا کوئی ساحل لیے ہوئے
دیکھ ہمارے صبر کی ہمت نہ ٹوٹ جائے
تم رات دن ستاؤ مگر دل لیے ہوئے
وہ شب بھی یاد ہے کہ میں پہنچا تھا بزم میں!
اور تم اٹھے تھے رونقِ محفل لیے ہوئے
اپنی ضروریات ہیں اپنی ضروریات
آنا پڑا مطلب تمہیں دل لیے ہوئے
بیٹھا جو دل تو چاند دکھا کر کہا قمر!
وہ سامنے چراغ ہے منزل لیے ہوئے
فہرست