بس تمھارا نام کافی زمانے کے لیے

قمر جلالوی


سرخیاں کیا ڈھونڈ کر لاؤں فسانے کے لیے
بس تمھارا نام کافی زمانے کے لیے
موجیں ساحل سے ہٹاتیں ہیں حبابوں کا ہجوم
وہ چلے آئے ہیں ساحل پر نہانے کے لیے
سوچتا ہوں اب کہیں بجلی گری تو کیوں گری
تنکے لایا تھا کہاں سے آشیانے کے لیے
چھوڑ کر بستی یہ دیوانے کہاں سے آ گئے
دشت کی بیٹھی بٹھائی خاک اڑانے کے لیے
ہنس کر کہتے ہو زمانہ بھر مجھی پہ جان دے
رہ گئے ہو کیا تمھیں سارے زمانے کے لیے
شام کو آؤ گے تم اچھا ابھی ہوتی ہے شام
گیسوؤ کو کھل دو سورج چھپانے کے لیے
کائناتِ عشق اک دل کے سواِ کچھ بھی نہیں
وہ ہی آنے کے لیے ہے وہ ہی جانے کے لیے
اے زمانے بھر کو خوشیاں دینے والے یہ بتا
کیا قمر ہی رہ گیا ہے غم اٹھانے کے لیے
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست