مرزا غالب


داغ دہلوی


مصحفی غلام ہمدانی


میر مہدی مجروح


فیض احمد فیض


باقی صدیقی


جون ایلیا


عبدالحمید عدم


قمر جلالوی

پھر نہ طوفان اٹھیں گے نہ گرے گی بجلی
یہ حوادث ہیں غریبوں ہی کے مٹ جانے تک
ان کو کوسے دے رہے ، ہو خود، ہیں جو جینے سے تنگ
زندگی رکھا ہے جن لوگوں نے مر جانے کا نام
اس ہوا میں قوتِ پرواز سے آگے نہ بڑھ
ہے قفس آزادیوں کی حد گزر جانے کا نام
یاد رکھیں گے تمھاری بزم میں آنے کو ہم
بیٹھنے کے واسطے اغیار اٹھ جانے کو ہم
رکھ کے تنکے ڈر رہے ہیں کیا کہے گا باغباں
دیکھتے ہیں آشیاں کی شاخ جھک جانے کو ہم
دو گھڑی کے واسطے تکلیف غیروں کو نہ دے
خود ہی بیٹھے ہیں تری محفل سے اٹھ جانے کو ہم
آپ قاتل سے مسیحا بن گئے اچھا ہوا
ورنہ اپنی زندگی سمجھے تھے مر جانے کو ہم
کچھ نظر نہیں آتا ان کے منہ چھپانے سے
ہر طرف اندھیرا ہے چاند ڈوب جانے سے
مے خانے میں دنیا دنیا آئے دنیا سے کچھ کام نہیں
جام اسی کو ے گا ساقی جس کو ساقی جانے ہے
جام نہ دینے کی باتیں ہیں ورنہ مجھ کو ویسے تو
ساقی جانے میکش جانے مے خانہ بھر جانے ہے
کون قمر سے ہے بیگانہ اہلِ زمیں یا اہلِ فلک
ذرہ ذرہ اس سے واقف تارا تارا جانے ہے
کائناتِ عشق اک دل کے سواِ کچھ بھی نہیں
وہ ہی آنے کے لیے ہے وہ ہی جانے کے لیے
تم اپنی ٹھوکریں کا ہے کو روکو دل کو کیوں مارو
ہمیں جب مٹ گئے تو قبر مٹ جانے سے کیا ہو گا
بڑی رنگینیاں تھیں اول شب ان کی محفل میں
بتاؤ بزم والو رات ڈھل جانے پہ کیا گزری
مرا دل جانتا ہے دونوں منظر میں نے دیکھے ہیں
ترے آنے پہ کیا گزری ترے جانے پہ کیا گزری

عرفان صدیقی


مجید امجد