دشتِ امید میں گرداں ہیں دوانے کب سے

فیض احمد فیض


حسرتِ دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے
دشتِ امید میں گرداں ہیں دوانے کب سے
دیر سے آنکھ پہ اترا نہیں اشکوں کا عذاب
اپنے ذمے ہے ترا فرض نہ جانے کب سے
کس طرح پاک ہو بے آرزو لمحوں کا حساب
درد آیا نہیں دربار سجانے کب سے
سر کرو ساز کہ چھیڑیں کوئی دل سوز غزل
"ڈھونڈتا ہے دلِ شوریدہ بہانے کب سے "
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست