بجلیاں نکلتی ہیں بچ کے آشیانے سے

قمر جلالوی


باز آ گیا شاید اب فلک ستانے سے
بجلیاں نکلتی ہیں بچ کے آشیانے سے
خاک لے گئی بجلی میرے آشیانے سے
صرف چار چھ تنکے وہ بھی کچھ پرانے سے
کچھ نظر نہیں آتا ان کے منہ چھپانے سے
ہر طرف اندھیرا ہے چاند ڈوب جانے سے
حال باغ اے گلچیں فائدہ چھپانے سے
ہم تو ہاتھ دھو بیٹھے اپنے آشیانے سے
باغ ہو کہ صحرا ہو جی کہیں نہیں لگتا
آپ سے ملے کیا ہم چھٹ گئے زمانے سے
صبح سے یہ وقت آیا وہ ہیں بزمِ دشمن ہے
مٹ گئیں ہیں کیا یا رب گردشیں زمانے سے
یہ سوال پھر کا ہے کب قیامت آئی گی
پہلے بچ تو لے دنیا آپ کے زمانے سے
ان کے حسن پر تہمت رکھ نہ اپنے مرنے کی
وہ تو موت آنے تھی اک نہ اک بہانے سے
آگ لگ کے تنکوں میں کیا بہار آئی ہے
پھول سے برستے ہیں میرے آشیانے سے
جو جفائیں پہلی تھیں وہ جفائیں اب بھی ہیں
انقلاب کیا یا رب اٹھ گئے زمانے سے
مبتلا ہوئے ایسے آسماں کی گردش میں
اے قمر نہ بیٹھے ہم آج تک ٹھکانے سے
فاعِلن مفاعیلن فاعِلن مفاعیلن
ہزج مثمن اشتر
فہرست