کیا تیریغم سے روشنی کچھ مل گئی ہے پھر

باقی صدیقی


احساس زندگی کی کلی کھل گئی ہے پھر
کیا تیریغم سے روشنی کچھ مل گئی ہے پھر
ہر نقش اک خراش ہے ، ہر رنگ ایک داغ
تصویر آئنے کے مقابل گئی ہے پھر
دو چار گام ساتھ چلے ہیں پھر اہلِ غم
کچھ دور تک صدائے سلاسل گئی ہے پھر
کچھ آدمی گلی میں کھڑے ہیں ادھر ادھر
شاید جہاں کو بات کوئی مل گئی ہے پھر
ٹوٹا ہے پھر غبارِ سرراہ کا طلسم
ہر راہرو کے سامنے منزل گئی ہے پھر
چلئے کہیں تو کچھ مجھے اپنی خبر ملے
وہ اک نظر جو لے کے مرا دل گئی ہے پھر
باقیؔ وہ بادباں کھلے وہ کشتیاں چلیں
وہ ایک موج جانب ساحل گئی ہے پھر
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست