صدائے ساز ہو گی اور نہ ساز بے صدا ہو گا

جگر مراد آبادی


تجھی سے ابتدا ہے تو ہی اک دن انتہا ہو گا
صدائے ساز ہو گی اور نہ ساز بے صدا ہو گا
ہمیں معلوم ہے ہم سے سنو محشر میں کیا ہو گا
سب اس کو دیکھتے ہوں گے وہ ہم کو دیکھتا ہو گا
سرِ محشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہو گا
درِ جنت نہ وا ہو گا در رحمت تو وا ہو گا
جہنم ہو کہ جنت جو بھی ہو گا فیصلہ ہو گا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور ان کا سامنا ہو گا
ازل ہو یا ابد دونوں اسیرِ زلف حضرت ہیں
جدھر نظریں اٹھاؤ گے یہی اک سلسلا ہو گا
یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں سکتی
جو محبوبِ خدا کا ہے وہ محبوبِ خدا ہو گا
اسی امید پر ہم طالبان درد جیتے ہیں
خوشا درد دے کہ تیرا اور دردِ لا دوا ہو گا
نگاہ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے
نگاہِ مہر عاشق پر اگر ہو گی تو کیا ہو گا
سیانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گزرے گی وہ دل ہی جانتا ہو گا
سمجھتا کیا ہے تو دیوانگان عشق کو زاہد
یہ ہو جائیں گے جس جانب اسی جانب خدا ہو گا
جگرؔ کا ہاتھ ہو گا حشر میں اور دامن حضرت
شکایت ہو کہ شکوہ جو بھی ہو گا برملا ہو گا
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست