مرزا غالب


امام بخش ناسخ


حیدر علی آتش


شیخ ابراہیم ذوق


مصحفی غلام ہمدانی


مومن خان مومن


فیض احمد فیض


مرزا رفیع سودا


میر انیس


باقی صدیقی


جون ایلیا


جگر مراد آبادی


عبدالحمید عدم


قمر جلالوی


شکیب جلالی


عرفان صدیقی

صحرا میں شور کرتی ہیں موجیں فرات کی
زنداں میں جیسے اہل سلاسل صدا کریں
جنگل تھا نہ بادل تھا نہ ساحل تھا نہ دل تھا
آندھی تھی نہ بارش تھی گرج تھی نہ صدا تھی
دالانوں میں سو جاتے تھے سہمے ہوئے بچے
افسوں تھا کہ شب گشت فقیروں کی صدا تھی
مٹی کے چراغوں میں جلا کرتی تھیں راتیں
چڑیوں کے بسیروں میں سویروں کی صدا تھی
ازل سے کچھ خرابی ہے کمانوں کی سماعت میں
پرندو! شوخیِ صوت و صدا سے کچھ نہیں ہوتا
پانیوں میں ڈوبتی جیسے رتوں کی کشتیاں
ساحلوں پر چیختی کوئی صدا، جیسے ہوا
نوحہ گزار ہوٗ کی صدا کے سوا نہ تھا
جنگل میں زندہ کوئی ہوا کے سوا نہ تھا
گونج کر گم ہو گئی صحرا میں اکبر کی اذاں
اڑتے اڑتے طائر صوت و صدا مارا گیا
اس خرابی کے مکاں میں ایک سایہ ایک نقش
ہم کلامی مجھ سے بے صوت و صدا کرتا تھا رات
شہر خوابیدہ میں فریاد نہ عکس فریاد
آخری سلسلۂ صوت و صدا بھی خاموش
طاق میں کب تک جلے گا یہ چراغِ انتظار
اس طرف شب گشت لوگوں کی صدا کب آئے گی
ترا ہی ذکر کریں گے لبِ سکوت سے ہم
ترا ہی نام بیاضِ صدا پہ لکھیں گے
شہرِ در شہر دواں ہے مری فریاد کی گونج
مجھ سے آگے مرا رہوارِ صدا چلتا ہے
ہو کا عالم ہے گرفتاروں کی آبادی میں
ہم تو سنتے تھے کہ زنجیر صدا کرتی ہے
زوالِ شب میں کسی کی صدا نکل آئے
ستارہ ڈوبے ستارہ نما نکل آئے
سماعتوں میں کوئی حرف آشنا بھی نہ آئے
میں چپ رہوں تو یہ بھولی ہوئی صدا بھی نہ آئے
غمِ دنیا میں غمِ جاں کی حقیقت کیا ہے
دوسرے چپ ہوں تو کچھ اپنی صدا بھی آئے
دنیا میں اور بھی تو اشارے سفر کے ہیں
ہر بار اپنے دل کی صدا پر نہ جائیے