اور اک شمع تہہ خاک دبا بھی آئے

عرفان صدیقی


اک دیا شام خموشاں میں جلا بھی آئے
اور اک شمع تہہ خاک دبا بھی آئے
اب کے اس در سے نہ نکلا کسی امید کا چاند
شب کے سناٹے میں آواز لگا بھی آئے
یہ سفر کتنا اکیلا ہے کہ عادت تو نہ تھی
دور تک ساتھ کوئی حرفِ دعا بھی آئے
اس کی پرچھائیں کا دھوکا نہیں ہونے والا
اب مری سمت اگر ظلِ ہما بھی آئے
غمِ دنیا میں غمِ جاں کی حقیقت کیا ہے
دوسرے چپ ہوں تو کچھ اپنی صدا بھی آئے
تو بہت دیر میں دیوانہ بنانے نکلی
ہم تو اے باؤلی رت خاک اڑا بھی آئے
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست