مرزا غالب


امام بخش ناسخ


حیدر علی آتش


داغ دہلوی


شیخ ابراہیم ذوق


مصحفی غلام ہمدانی


مصطفٰی خان شیفتہ


مومن خان مومن


فیض احمد فیض


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی


جون ایلیا


عبدالحمید عدم


قمر جلالوی


عرفان صدیقی

وہ کوئی اور ہے جو پیاس بجھاتا ہے مری
ابر پھیلا ہوا دامان دعا لگتا ہے
نخلِ مراد کے لیے فصلِ دعا بھی چاہیے
تابِ نمو تو ہم میں ہے ، آب و ہوا بھی چاہیے
چلو‘ اب آسماں سے اور کوئی رابطہ سوچیں
بہت دن ہو گئے حرفِ دعا سے کچھ نہیں ہوتا
دو لرزتے ہاتھ جیسے سایہ پھیلائے شجر
کانپتے ہونٹوں پہ اک حرفِ دعا، جیسے ہوا
اور کیا مجھ کو مرے دیس کی دھرتی دیتی
ماں کا سرمایہ بجز حرفِ دعا کچھ بھی نہ تھا
چھٹ گیا آشفتگاں کے ہاتھ سے دامانِ صبر
سینۂ صد چاک پر دستِ دعا مارا گیا
خدا سے آخری رشتہ بھی کٹ نہ جائے کہیں
کہ اب کے ہے مرا دستِ دعا نشانے پر
بے چارے چارہ سازی آزار کیا کریں
دو ہاتھ ہیں سو محوِ دعا ہونے والے ہیں
دل و زباں میں کبھی جیسے رابطہ ہی نہ تھا
اٹھے بھی ہاتھ تو رسمِ دعا چلی ہی نہیں
ہم کون شناور تھے کہ یوں پار اترتے
سوکھے ہوئے ہونٹوں کی دعا لے گئی ہم کو
ننھے ہونٹوں پر کھلیں معصوم لفظوں کے گلاب
اور ماتھے پر کوئی حرفِ دعا روشن کرے
بہت بے اماں پھر رہے ہیں مسافر
کہاں ہیں خطوں میں دعا لکھنے والے
اب نمودار ہو اس گرد سے اے ناقہ سوار
کب سے بستی ترے ملنے کی دعا کرتی ہے
کیسے آشوب میں زندہ ہے مرادوں کی طرح
جانے بھاگوں بھری بستی پہ دعا کس کی ہے
بند ہیں اس شہرِ ناپرساں کے دروازے تمام
اب مرے گھر اے مری ماں کی دعا لے چل مجھے
یہ کس نے دستِ بریدہ کی فصل بوئی تھی
تمام شہر میں نخلِ دعا نکل آئے
یہ سفر کتنا اکیلا ہے کہ عادت تو نہ تھی
دور تک ساتھ کوئی حرفِ دعا بھی آئے