حق آشنائی ادا کر چکے ہم

مصحفی غلام ہمدانی


سر اپنے کو تجھ پر فدا کر چکے ہم
حق آشنائی ادا کر چکے ہم
تو سمجھے نہ سمجھے ہمیں ساتھ تیرے
جو کرنی تھی اے بے وفا کر چکے ہم
خدا سے نہیں کام اب ہم کو یارو
کہ اک بت کو اپنا خدا کر چکے ہم
میں پوچھا مرا کام کس دن کرو گے
تو یوں منہ پھرا کر کہا کر چکے ہم
گھرس لے تو اب ان کو چیرے میں اپنے
تماشائے زلفِ دوتا کر چکے ہم
تو جاوے نہ جاوے جو کرنی تھی ہم کو
سماجت تری اے صبا کر چکے ہم
نہ بولیں گے پیارے تری ہی سنیں گے
تو دشنام دے اب دعا کر چکے ہم
کبھو کام اپنا کسی سے نہ نکلا
بہت خلق کی التجا کر چکے ہم
لڑی مصحفیؔ آنکھ جس سے کہ اپنی
پر آخر اسے آشنا کر چکے ہم
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
متقارب مثمن سالم
فہرست