ہوا کبھی سر دشتِ بلا چلی ہی نہیں

عرفان صدیقی


مری طرف تری موج نوا چلی ہی نہیں
ہوا کبھی سر دشتِ بلا چلی ہی نہیں
تمام فیصلے بس ایک شخص کرتا تھا
وہاں یہ بحثِ خطا و سزا چلی ہی نہیں
دل و زباں میں کبھی جیسے رابطہ ہی نہ تھا
اٹھے بھی ہاتھ تو رسمِ دعا چلی ہی نہیں
یہ مت سمجھ کہ ترے قتل کا خیال نہ تھا
نکل چکی تھی مگر بے وفا چلی ہی نہیں
میں چاہتا تھا کہ کچھ سرکشی کی داد ملے
تو اب کے شہر میں تیغِ جفا چلی ہی نہیں
بہت خراب تھی شعلہ گروں کی قسمت بھی
مکان اور بھی جلتے ، ہوا چلی ہی نہیں
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست