غزل سرا
ہماری کتابیں
شعراء
رابطہ
اکاؤنٹ
رجسٹر
لاگ اِن
غزل سرا کے بارے میں
تلاش
مرزا غالب
ضعف سے گریہ مبدل بہ دمِ سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں
گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا؟
غنچہ پھر لگا کھلنے ، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا
پوچھ مت وجہ سیہ مستی ارباب چمن
سایۂِ تاک میں ہوتی ہے ہوا موجِ شراب
ہے یہ برسات وہ موسم کہ عجب کیا ہے اگر
موجِ ہستی کو کرے فیضِ ہوا موجِ شراب
شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
شعلۂِ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد
مجھ سے کہا جو یار نے ’جاتے ہیں ہوش کس طرح‘
دیکھ کے میری بیخودی، چلنے لگی ہوا کہ یوں
اک شرر دل میں ہے اس سے کوئی گھبرائے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو ،جو ہوا کہتے ہیں
تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
ہم بھی مضموں کی ہوا باندھتے ہیں
آہ کا کس نے اثر دیکھا ہے
ہم بھی اک اپنی ہوا باندھتے ہیں
غیر کی مرگ کا غم کس لیے ، اے غیرتِ ماہ!
ہیں ہوس پیشہ بہت، وہ نہ ہوا، اور سہی
کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے ، واعظ!
خلد بھی باغ ہے ، خیر آب و ہوا اور سہی
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
نہ پوچھ سینۂِ عاشق سے آب تیغ نگاہ
کہ زخم روزنِ در سے ہوا نکلتی ہے
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے
رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجادہ رہن مے
مدت ہوئی ہے دعوت آب و ہوا کیے
نہیں بہار کو فرصت، نہ ہو بہار تو ہے !
طرواتِ چمن و خوبی ہوا کہیے
امام بخش ناسخ
جب سے کہ بتوں سے آشنا ہوں
بیگانہ خدائی سے ہوا ہوں
اشک تھم جائیں جو فرقت میں تو آہیں نکلیں
خشک ہو جائے جو پانی تو ہوا پیدا ہو
انشاء اللہ خان انشا
پکڑی کسی سے جاوے نسیم اور صبا بندھے
مولیٰ کرے کچھ اپنی بھی اب تو ہوا بندھے
بہادر شاہ ظفر
ہوا میں پھرتے ہو کیا حرص اور ہوا کے لیے
غرور چھوڑ دو اے غافلو خدا کے لیے
تپش سے دل کا ہو کیا جانے سینے میں کیا حال
جو تیرے تیر کا روزن نہ ہو ہوا کے لیے
ہائے ساقی یہ ہو ساماں اور عاشق واں نہ ہو
یار تھا سبزہ تھا بدلی تھی ہوا تھی میں نہ تھا
جو نہ ہونا تھا ہوا ہم پر تمہارے عشق میں
تم نے اتنا بھی نہ پوچھا کیا ہوا کیونکر ہوا
حیدر علی آتش
خوشبو سے ہو رہا ہے معطر دماغ جان
چلتی ہے کس طرف کی ہوا کچھ نہ پوچھئے
داغ دہلوی
دم رکتے ہی سینہ سے نکل پڑتے ہیں آنسو
بارش کی علامت ہے جو ہوتی ہے ہوا بند
کہتے تھے ہم ۔ اے داغ وہ کوچہ ہے خطرناک
چھپ چھپ کے مگر آپ کا جانا نہ ہوا بند
دل میں ہے غم و رنج و الم، حرص و ہوا بند
دنیا میں مخمس کا ہمارے نہ کھلا بند
داغؔ سے کہہ دو اب نہ گھبراؤ
کام اپنا بتا ہوا جانے
شیخ ابراہیم ذوق
فکر قناعت ان کو میسر ہوئی کہاں
دنیا سے دل میں لے کے جو حرص و ہوا چلے
اس روئے آتشیں کے تصور میں یاد زلف
یعنی غضب ہے آگ لگے اور ہوا چلے
شعلہ بھڑکے نہ کیوں کہ محفل میں
شمع تجھ بن ہوا سے لڑتی ہے
جو حوادث سے زمانے کے گرا پھر نہ اٹھا
نخل آندھی کا کہیں اکھڑا ہوا لگتا ہے
تیرے مدہوش سے کیا ہوش و خرد کی ہو امید
رات کا بھی نہ جسے کھایا ہوا یاد رہے
تیرا عاشق نہ ہو آسودہ بہ زیر طوبیٰ
خلد میں بھی ترے کوچے کی ہوا یاد رہے
مصحفی غلام ہمدانی
یہ بہار ہووے گی سب خزاں نہ سمن نہ لالہ نہ ارغواں
دم گرم کی مرے دوستاں کبھو باغ میں جو ہوا گئی
ابھی اپنے مرتبۂِ حسن سے میاں با خبر تو ہوا نہیں
کہ غزل سرا ترے باغ میں کوئی مرغ تازہ نوا نہیں
اے مشتِ غبار تن فرسودۂِ عاشق
اس کو میں زمیں گیر ہے گیو اب تو ہوا ہو
خاک دہلی کی ذرا سیر تو کر
کہ عجب آب و ہوا رکھتی ہے
کہاں کی ہوا تک رہا ہے تو ناداں
کہ پل مارتے یاں ہوا زندگی ہے
پوچھتا کوئی نہیں کب سے ترے کوچے میں
دل کسی کا ہے کہ پامال ہوا جاتا ہے
کیوں کہ کہیے کہ ادا بندی ہے
شاعری کیا ہے ہوا بندی ہے
ہو نہ اے خاک کے پتلے مغرور
اس پہ تو یہ جو ہوا تجھ میں ہے
جب کہ بے پردہ تو ہوا ہو گا
ماہ پردے سے تک رہا ہو گا
مگر یہ کہ ان روزوں پھر مصحفیؔ کو
ترے غم میں سودا ہوا چاہتا ہے
مصطفٰی خان شیفتہ
بچتے ہیں اس قدر جو ادھر کی ہوا سے ہم
واقف ہیں شیوۂِ دلِ شورش ادا سے ہم
بلبل یہ کہہ رہی ہے سرِ شاخسار پر
بدمست ہو رہے ہیں چمن کی ہوا سے ہم
کمی تھی حالتِ رندی میں اس کو کیا یارو
کوئی یہ پوچھے کہ کیوں شیفتہ ہوا واعظ
دیا ہے بوسہ مجھے جب کہ میں ہوا گستاخ
غلط ہے بات کہ کم رزق ہے گدا گستاخ
اٹھ صبح ہوئی مرغِ چمن نغمۂِ سرا دیکھ
نورِ سحر و حسنِ گل و لطف ہوا دیکھ
مومن خان مومن
گلبانگ کس کا مشورۂِ قتل ہو گیا
کچھ آج بوئے خوں ہے وہاں کی ہوا کے ساتھ
اللٰہ رے سوز آتشِ غم بعدِ مرگ بھی
اٹھتے ہیں میری خاک سے شعلے ہوا کے ساتھ
کچھ آنکھ بند ہوتے ہی آنکھیں سی کھل گئیں
جی اک بلائے جان تھا اچھا ہوا گیا
مرزا رفیع سودا
آوارگی سے خوش ہوں میں اتنا کہ بعدِ مرگ
ہر ذرہ میری خاک کا ہو گا ہوا پرست
گریۂ شیشہ کبھی تھا تو کبھی خندۂ جام
ساقی اس دور میں تیرے نہ ہوا کیا کیا کچھ
دوستو حق میں ترقی و تنزل اپنے
کیا کہیں ہم کو زمانے سے ہوا کیا کیا کچھ
میر انیس
انیسؔ دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
جہاں کی لذت و خواہش سے ہے بشر کا خمیر
وہ کون ہیں کہ جو حرص و ہوا نہیں رکھتے
نام روشن کر کے کیونکر بجھ نہ جاتا مثلِ شمع
نا موافق تھی زمانہ کی ہوا میرے لیے
یگانہ چنگیزی
زندان مصیبت سے کوئی نکلے تو کیونکر
رسوا سرِ بازار ہوا بھی نہیں جاتا
دامن قاتل جو اڑ اڑ کر ہوا دینے لگے
کیا بتاؤں زخمِ دل کیا کیا دعا دینے لگے
باقی صدیقی
قدم کچھ اس طرح اکھڑے کہ سوچ بھی نہ سکے
کدھر سے آئے تھے ہم رخ کدھر ہوا کا تھا
زندگی راستہ ہے یا منزل
چل دیا سوچتا ہوا کوئی
وہ گرد اڑاتی کسی نے کہ سانس گھٹنے لگی
ہٹے یہ راہسے دیوار تو ہوا آئے
یہ روشنی کی کرن ہے کہ آگ کا شعلہ
ہر ایک گھر مجھے جلتا ہوا نظر آیا
یہ دوپہر یہ پگھلتی ہوئی سڑک باقیؔ
ہر ایک شخص پھسلتا ہوا نظر آیا
کیا داغ جلے دل کے بہ انداز چراغاں
احساس اندھیرے کا ہوا اور زیادہ
پھول مہکے تھے رند بہکے تھے
جشن برپا ہوا تھا پہلے بھی
آنچ صیاد کے گھر تک پہنچی
اتنی شعلوں کو ہوا دی ہم نے
جون ایلیا
آج لب گہر فشاں آپ نے وا نہیں کیا
تذکرۂ خجستۂ آب و ہوا نہیں کیا
جو ہوا جونؔ وہ ہوا بھی نہیں
یعنی جو کچھ بھی تھا وہ تھا بھی نہیں
اک شخص جو مجھ سے وقت لے کر
آج آ نہ سکا تو خوش ہوا ہوں
کل پر ہی رکھو وفا کی باتیں
میں آج بہت بوجھا ہوا ہوں
کام مجھ سے کوئی ہوا ہی نہیں
بات یہ ہے کہ میں تو تھا ہی نہیں
اک سانس ہی بس لیا ہے میں نے
تو سانس نہ تھا سو کیا ہوا تو
کتنی وحشت ہے درمیان ہجوم
جس کو دیکھو گیا ہوا ہے کہیں
دل جو ہے آگ لگا دوں اس کو
اور پھر خود ہی ہوا دوں اس کو
سلسلہ جنباں اک تنہا سے روح کسی تنہا کی تھی
ایک آواز ابھی آئی تھی وہ آواز ہوا کی تھی
خشک ہے چشمہ سار جاں زرد ہے سبزہ زار دل
اب تو یہ سوچیے کہ یاں پہلے کبھی ہوا بھی تھی
جگر مراد آبادی
ہاں ہاں تجھے کیا کام مری شدتِ غم سے
ہاں ہاں نہیں مجھ کو ترے دامن کی ہوا یاد
وہی حسن جس کے ہیں یہ سب مظاہر
اسی حسن میں حل ہوا جا رہا ہوں
نہ صورت نہ معنی نہ پیدا نہ پنہاں
یہ کس حسن میں گم ہوا جا رہا ہوں
خواجہ میر درد
لیکن اس کو اثر خدا جانے
نہ ہوا ہو گا یا ہوا ہو گا
سراج الدین ظفر
ارض و سما برائے دوست کون و مکاں سرائے دوست
جو بھی ہے ماسوائے دوست حرص سمجھ ہوا سمجھ
عبدالحمید عدم
شیخ اور بہشت کتنے تعجب کی بات ہے
یارب یہ ظلم خلد کی آب و ہوا کے ساتھ
مے چھٹی پر گاہے گاہے اب بھی بہر احترام
دعوت آب و ہوا تسلیم کر لیتا ہوں میں
قمر جلالوی
اترا کہ یہ رفتارِ جوانی نہیں اچھی
چال ایسی چلا کرتے ہیں جیسے کہ ہوا ہو
شکیب جلالی
کیا کہیے کہ اب اس کی صدا تک نہیں آتی
اونچی ہوں فصیلیں تو ہوا تک نہیں آتی
بہتر ہے ‘ پلٹ جاؤ سیہ خانۂ غم سے
اس سرد گپھا میں تو ہوا تک نہیں آتی
عرفان صدیقی
ہوا آخر وہ ہم سے ہم سخن، قدرے تکلف سے
چلی صحرا میں بھی ٹھنڈی ہوا آہستہ آہستہ
یہ کون سے صحرا کی پراسرار ہوا تھی
پل بھر میں نہ دریا تھا نہ میں تھا نہ گھٹا تھی
نخلِ مراد کے لیے فصلِ دعا بھی چاہیے
تابِ نمو تو ہم میں ہے ، آب و ہوا بھی چاہیے
دھنک سے پھول سے ‘ برگِ حنا سے کچھ نہیں ہوتا
بدن صحرا ہوئے ‘ آب و ہوا سے کچھ نہیں ہوتا
اسیر کس نے کیا موج موج پانی کو
کنارِ آپ ہے پہرا لگا ہوا کیسا
گرتی دیواروں کے نیچے سائے ، جیسے آدمی
تنگ گلیوں میں فقط عکسِ ہوا، جیسے ہوا
نوحہ گزار ہوٗ کی صدا کے سوا نہ تھا
جنگل میں زندہ کوئی ہوا کے سوا نہ تھا
سب تری دین ہے ، یہ رنگ، یہ خوشبو، یہ غبار
میرے دامن میں تو اے موجِ ہوا کچھ بھی نہ تھا
زرد پتوں کے بکھرنے کی خبر دیتا ہوا
رقص میرے صحن میں پیکِ ہوا کرتا تھا رات
الٹ گیا ہے ہر اک سلسلہ نشانے پر
چراغ گھات میں ہیں اور ہوا نشانے پر
کوئی ہے تیرگیِ شام کا مجرم کہ یہاں
ہے چراغوں کی طرح موجِ ہوا بھی خاموش
ایک اور دن شہید ہوا، ہو گئی ہے شام
لشکر سے شب کے شور اٹھا ہو گئی ہے شام
آئنے خوش ہیں کہ اڑ جائے گی سب گردِ ملال
شہر میں رقصِ ہوا ہو گا علیؑ آنے کو ہیں
آج تک ہوتا رہا ظالم ترا سوچا ہوا
اب مرا چاہا ہوا ہو گا علیؑ آنے کو ہیں
ہم اپنے ذہن کی آب و ہوا میں زندہ ہیں
عجب درخت ہیں‘ دشتِ بلا میں زندہ ہیں
بہت خراب تھی شعلہ گروں کی قسمت بھی
مکان اور بھی جلتے ، ہوا چلی ہی نہیں
پھر چھوڑ دیا ریگِ سرِ راہ سمجھ کر
کچھ دور تو موسم کی ہوا لے گئی ہم کو
یہ تو صحرا ہے یہاں ٹھنڈی ہوا کب آئے گی
یار، تم کو سانس لینے کی ادا کب آئے گی
آگ جلتی چھوڑ آئے ہو تو اب کیا فکر ہے
جانے کتنے شہر یہ پاگل ہوا روشن کرے
بیاں کریں گے نہ کوئی سبب اداسی کا
جو کچھ بھی لکھیں گے آب و ہوا پہ لکھیں گے
سلامت رہیں بے ہوا بستیوں میں
پرندے ، پیامِ ہوا لکھنے والے
لہر اٹھے کوئی دل میں تو کنارے لگ جائیں
یہ سمندر ہے یہاں حکمِ ہوا چلتا ہے
شاخ کے بعد زمیں سے بھی جدا ہونا ہے
برگ افتادہ! ابھی رقصِ ہوا ہونا ہے
ہم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہیں آزاد
گھر کو چلتے ہیں کہ اب شام ہوا چاہتی ہے
بادبانوں کی طرف دیکھنے والا میں کون
کشتیاں کس کی ہیں‘ سفاک ہوا کس کی ہے
میں تو اک بادل کا ٹکڑا ہوں، اڑالے چل مجھے
تو جہاں چاہے وہاں موجِ ہوا لے چل مجھے
بڑی گھٹن ہے ‘ چراغوں کا کیا خیال کروں
اب اس طرف کوئی موجِ ہوا نکل آئے
جب بال و پر نہیں ہیں تو ہوا پر نہ جائیے
آندھی میں سیر ارض و سماء پر نہ جائیے
مجید امجد
بس اک تری ہی شکم سیر روح ہے آزاد
اب اے اسیرِ کمندِ ہوا، جو تو چاہے
مصطفی زیدی
تری تلاش میں ہر رہنما سے باتیں کیں
خلا سے ربط بڑھایا ہوا سے باتیں کیں
اختر حسین جعفری
شاخ پر پتیوں کی زبانیں کھلیں نور کی چھاؤں میں پھر دکانیں کھلیں
خواب تلنے لگے غم ترازو ہوا رات ڈھلنے لگی رت بدلنے لگی
سطر معتوب پر عذر خواہی نہ تھی میرے خط پر کسی کی گواہی نہ تھی
فیصلہ جو ہوا آخر شب ہوا رات ڈھلنے لگی رت بدلنے لگی
الطاف حسین حالی
دل میں دردِ عشق نے مدت سے کر رکھا ہے گھر
پر اسے آلودۂ حرص و ہوا پاتے ہیں ہم
جمال احسانی
یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کچھ
بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے
رئیس فروغؔ
ہاتھ ہمارے سب سے اونچے ہاتھوں ہی سے گلہ بھی ہے
گھر ایسے کو سونپ دیا جو آگ بھی ہے اور ہوا بھی ہے
ہوا نے بادل سے کیا کہا ہے
کہ شہر جنگل بنا ہوا ہے
سائے میں سایہ ملا نہیں
دائرہ پورا ہوا نہیں
میری آنکھوں میں کیا چھپ گیا ہے جسے
رات بھر ڈھونڈتی ہے ہوا ہر طرف
ہوا جانے کیا کہہ رہی ہے ہوا سے
جہاں شہر ملتا ہے دشتِ بلا سے
فضا ملول تھی میں نے فضا سے کچھ نہ کہا
ہوا میں دھول تھی میں نے ہوا سے کچھ نہ کہا
تیرے آنگن میں صبا کہلائے
ورنہ آوارہ ہوا کہلائے
تلاش گم شدگاں میں نکل چلوں لیکن
یہ سوچتا ہوں کہ کھویا ہوا تو میں بھی ہوں
احسان دانش
ان کو گنوا کے حال رہا ہے یہ مدتوں
آیا خیال بھی تو بڑا غم ہوا مجھے
مآل کار سے گلشن کی ہر پتی لرزتی ہے
کہ آخر رنگ و بو اڑ جائیں گے اک دن ہوا ہو کر
موسم سے رنگ و بو ہیں خفا دیکھتے چلو
یہ کیا چلی چمن میں ہوا دیکھتے چلو
اختر شیرانی
کس کو دیکھا ہے یہ ہوا کیا ہے
دل دھڑکتا ہے ماجرا کیا ہے
اس کے عہدِ شباب میں جینا
جینے والو تمہیں ہوا کیا ہے
بہت خوش ہے دلِ ناداں ہوائے کوے جاناں میں
مگر ہم سے زمانے کی ہوا کچھ اور کہتی ہے
مری جانب سے کہہ دینا صبا لاہور والوں سے
کہ اس موسم میں دہلی کی ہوا کچھ اور کہتی ہے
ادا جعفری
لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے
وہم سا دل کو ہوا تھا شاید
دل کا کوئی زیاں نہیں جاں کا معاملہ نہیں
ہاتھ میں اک دیا نہیں موجِ ہوا بھی کیوں کھلے
نہ جانے قافلے گزرے کہ ہے قیام ابھی
ابھی چراغ بجھانے ہوا نہیں آئی
اسرار الحق مجاز
کبھی یہ زعم کہ تو مجھ سے چھپ نہیں سکتا
کبھی یہ وہم کہ خود بھی چھپا ہوا ہوں میں
وہ مخمور نظریں وہ مدہوش آنکھیں
خرابِ محبت ہوا چاہتا ہوں
تجھے ڈھونڈتا ہوں تری جستجو ہے
مزا ہے کہ خود گم ہوا چاہتا ہوں
سینۂ شوق میں وہ زخم کہ لو دے اٹھے
اور بھی تیز زمانے کی ہوا ہو ساقی
اکبر معصوم
کیا بتاؤں تمہیں وہ شہر تھا کیا
جس کی آب و ہوا رہا ہوں میں
بشیر بدر
روز آتی تھی ہوا اس کی طرح
اب وہ آیا تو ہوا ہو جیسے
سویرے میری ان آنکھوں نے دیکھا
خدا چاروں طرف بکھرا ہوا ہے
سمیٹو اور سینے میں چھپا لو
یہ سناٹا بہت پھیلا ہوا ہے
مرے دل کی راکھ کرید مت اسے مسکرا کے ہوا نہ دے
یہ چراغ پھر بھی چراغ ہے کہیں تیرا ہاتھ جلا نہ دے
نئے دور کے نئے خواب ہیں نئے موسموں کے گلاب ہیں
یہ محبتوں کے چراغ ہیں انہیں نفرتوں کی ہوا نہ دے
نہیں ہے میرے مقدر میں روشنی نہ سہی
یہ کھڑکی کھولو ذرا صبح کی ہوا ہی لگے
میں کب تنہا ہوا تھا یاد ہوگا
تمہارا فیصلہ تھا یاد ہوگا
بیان میرٹھی
خون شہید عشق وہ کہتے تھے فاش کیسے ہو
رنگ گل عذار سے سرخ ہوئی ہوا کہ یوں
زہرا نگاہ
اے شیشہ گرو کچھ تو کرو آئنہ خانہ
رنگوں سے خفا رخ سے جدا یوں نہ ہوا تھا
سدرشن فاکر
کسی رنجش کو ہوا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
مجھ کو احساس دلا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
ضیا جالندھری
تری نگہ سے اسے بھی گماں ہوا کہ میں ہوں
وگرنہ دل تو مرا مانتا نہ تھا کہ میں ہوں
ظہیر کاشمیری
اس دور عافیت میں یہ کیا ہو گیا ہمیں
پتہ سمجھ کے لے اڑی وحشی ہوا ہمیں
عالم تاب تشنہ
چراغ شعلۂ سر ہوں اور ہوا میں
سر دیوارِ جاں رکھا ہوا ہوں
یہ کہنا ہو گئے ہم اتنے مصلحت اندیش
چلے جو لو تو اسے ابھی خنک ہوا کہنا
عبید اللہ علیم
اک میرا وجود سن رہا ہے
الہام جو رات کی ہوا دے
کچھ تو بتاؤ شاعر بیدار کیا ہوا
کس کی تلاش ہے تمہیں اور کون کھو گیا
اب آ بھی جا کہ صبح سے پہلے ہی بجھ نہ جاؤں
اے میرے آفتاب بہت تیز ہے ہوا
یوں ہی حیراں نہیں ہیں آنکھ والے
کہیں اک آئنہ رکھا ہوا ہے
ہر اک کے ساتھ کوئی واقعہ سا لگتا ہے
جسے بھی دیکھو وہ کھویا ہوا سا لگتا ہے
زمین ہے سو وہ اپنی گردشوں میں کہیں
جو چاند ہے سو وہ ٹوٹا ہوا سا لگتا ہے
یہ رات کھا گئی اک ایک کر کے سارے چراغ
جو رہ گیا ہے وہ بجھتا ہوا سا لگتا ہے
یہ موت ہے یا کوئی آخری وصال کے بعد
عجب سکون میں سویا ہوا سا لگتا ہے
عجیب کیفیت جذب و حال رکھتی ہے
تمہارے شہر کی آب و ہوا ہمارے لیے
علی سردار جعفری
لو کے موسم میں بہاروں کی ہوا مانگتے ہیں
ہم کف دستِ خزاں پر بھی حنا مانگتے ہیں
غلام محمد قاصر
اب اسی آگ میں جلتے ہیں جسے
اپنے دامن سے ہوا دی ہم نے
فارغ بخاری
اپنے ہی سائے میں تھا میں شاید چھپا ہوا
جب خود ہی ہٹ گیا تو کہیں راستہ ملا
دیوار پھاند کر نہ یہاں آئے گا کوئی
رہنے دو زخمِ دل کا دریچہ کھلا ہوا
نکلا اگر تو ہاتھ نہ آؤں گا پھر کبھی
کب سے ہوں اس بدن کی کماں میں تنا ہوا
اتنا بھی کون ہو گا ہلاک فریبِ رنگ
شب اس نے مے جو پی ہے تو مجھ کو نشہ ہوا
فارغؔ ہوائے درد نے لوٹا دیا جسے
آئے گا ایک دن مرا گھر پوچھتا ہوا
اس اوج پر نہ اچھالو مجھے ہوا کر کے
کہ میں جہاں سے ہوں اترا خدا خدا کر کے