مرزا غالب

ضعف سے گریہ مبدل بہ دمِ سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں
گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا؟
غنچہ پھر لگا کھلنے ، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا
پوچھ مت وجہ سیہ مستی ارباب چمن
سایۂِ تاک میں ہوتی ہے ہوا موجِ شراب
ہے یہ برسات وہ موسم کہ عجب کیا ہے اگر
موجِ ہستی کو کرے فیضِ ہوا موجِ شراب
شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
شعلۂِ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد
مجھ سے کہا جو یار نے ’جاتے ہیں ہوش کس طرح‘
دیکھ کے میری بیخودی، چلنے لگی ہوا کہ یوں
اک شرر دل میں ہے اس سے کوئی گھبرائے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو ،جو ہوا کہتے ہیں
تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
ہم بھی مضموں کی ہوا باندھتے ہیں
آہ کا کس نے اثر دیکھا ہے
ہم بھی اک اپنی ہوا باندھتے ہیں
غیر کی مرگ کا غم کس لیے ، اے غیرتِ ماہ!
ہیں ہوس پیشہ بہت، وہ نہ ہوا، اور سہی
کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے ، واعظ!
خلد بھی باغ ہے ، خیر آب و ہوا اور سہی
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
نہ پوچھ سینۂِ عاشق سے آب تیغ نگاہ
کہ زخم روزنِ در سے ہوا نکلتی ہے
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے
رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجادہ رہن مے
مدت ہوئی ہے دعوت آب و ہوا کیے
نہیں بہار کو فرصت، نہ ہو بہار تو ہے !
طرواتِ چمن و خوبی ہوا کہیے

امام بخش ناسخ


انشاء اللہ خان انشا


بہادر شاہ ظفر


حیدر علی آتش


داغ دہلوی


شیخ ابراہیم ذوق


مصحفی غلام ہمدانی


مصطفٰی خان شیفتہ


مومن خان مومن


مرزا رفیع سودا


میر انیس


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی


جون ایلیا


جگر مراد آبادی


خواجہ میر درد


سراج الدین ظفر


عبدالحمید عدم


قمر جلالوی


شکیب جلالی


عرفان صدیقی

ہوا آخر وہ ہم سے ہم سخن، قدرے تکلف سے
چلی صحرا میں بھی ٹھنڈی ہوا آہستہ آہستہ
یہ کون سے صحرا کی پراسرار ہوا تھی
پل بھر میں نہ دریا تھا نہ میں تھا نہ گھٹا تھی
نخلِ مراد کے لیے فصلِ دعا بھی چاہیے
تابِ نمو تو ہم میں ہے ، آب و ہوا بھی چاہیے
دھنک سے پھول سے ‘ برگِ حنا سے کچھ نہیں ہوتا
بدن صحرا ہوئے ‘ آب و ہوا سے کچھ نہیں ہوتا
اسیر کس نے کیا موج موج پانی کو
کنارِ آپ ہے پہرا لگا ہوا کیسا
گرتی دیواروں کے نیچے سائے ، جیسے آدمی
تنگ گلیوں میں فقط عکسِ ہوا، جیسے ہوا
نوحہ گزار ہوٗ کی صدا کے سوا نہ تھا
جنگل میں زندہ کوئی ہوا کے سوا نہ تھا
سب تری دین ہے ، یہ رنگ، یہ خوشبو، یہ غبار
میرے دامن میں تو اے موجِ ہوا کچھ بھی نہ تھا
زرد پتوں کے بکھرنے کی خبر دیتا ہوا
رقص میرے صحن میں پیکِ ہوا کرتا تھا رات
الٹ گیا ہے ہر اک سلسلہ نشانے پر
چراغ گھات میں ہیں اور ہوا نشانے پر
کوئی ہے تیرگیِ شام کا مجرم کہ یہاں
ہے چراغوں کی طرح موجِ ہوا بھی خاموش
ایک اور دن شہید ہوا، ہو گئی ہے شام
لشکر سے شب کے شور اٹھا ہو گئی ہے شام
آئنے خوش ہیں کہ اڑ جائے گی سب گردِ ملال
شہر میں رقصِ ہوا ہو گا علیؑ آنے کو ہیں
آج تک ہوتا رہا ظالم ترا سوچا ہوا
اب مرا چاہا ہوا ہو گا علیؑ آنے کو ہیں
ہم اپنے ذہن کی آب و ہوا میں زندہ ہیں
عجب درخت ہیں‘ دشتِ بلا میں زندہ ہیں
بہت خراب تھی شعلہ گروں کی قسمت بھی
مکان اور بھی جلتے ، ہوا چلی ہی نہیں
پھر چھوڑ دیا ریگِ سرِ راہ سمجھ کر
کچھ دور تو موسم کی ہوا لے گئی ہم کو
یہ تو صحرا ہے یہاں ٹھنڈی ہوا کب آئے گی
یار، تم کو سانس لینے کی ادا کب آئے گی
آگ جلتی چھوڑ آئے ہو تو اب کیا فکر ہے
جانے کتنے شہر یہ پاگل ہوا روشن کرے
بیاں کریں گے نہ کوئی سبب اداسی کا
جو کچھ بھی لکھیں گے آب و ہوا پہ لکھیں گے
سلامت رہیں بے ہوا بستیوں میں
پرندے ، پیامِ ہوا لکھنے والے
لہر اٹھے کوئی دل میں تو کنارے لگ جائیں
یہ سمندر ہے یہاں حکمِ ہوا چلتا ہے
شاخ کے بعد زمیں سے بھی جدا ہونا ہے
برگ افتادہ! ابھی رقصِ ہوا ہونا ہے
ہم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہیں آزاد
گھر کو چلتے ہیں کہ اب شام ہوا چاہتی ہے
بادبانوں کی طرف دیکھنے والا میں کون
کشتیاں کس کی ہیں‘ سفاک ہوا کس کی ہے
میں تو اک بادل کا ٹکڑا ہوں، اڑالے چل مجھے
تو جہاں چاہے وہاں موجِ ہوا لے چل مجھے
بڑی گھٹن ہے ‘ چراغوں کا کیا خیال کروں
اب اس طرف کوئی موجِ ہوا نکل آئے
جب بال و پر نہیں ہیں تو ہوا پر نہ جائیے
آندھی میں سیر ارض و سماء پر نہ جائیے

مجید امجد