تو اے بتِ کافر نہ خدا ہے نہ خدا ہو

قمر جلالوی


سجدے ترے کہنے سے میں کر لوں بھی تو کیا ہو
تو اے بتِ کافر نہ خدا ہے نہ خدا ہو
غنچے کے چٹکنے پہ نہ گلشن میں خفا ہو
ممکن ہے کسی ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہو
کھا اس کی قسم جو نہ تجھے دیکھ چکا ہو
تیرے تو فرشتوں سے بھی وعدہ نہ وفا ہو
انسان کسی فطرت پہ تو قائم ہو کم از کم
اچھا ہو تو اچھا ہو برا ہو تو برا ہو
اس حشر میں کچھ داد نہ فریاد کسی کی
جو حشر کے ظالم ترے کوچے سے اٹھا ہو
اترا کہ یہ رفتارِ جوانی نہیں اچھی
چال ایسی چلا کرتے ہیں جیسے کہ ہوا ہو
میخانے میں جب ہم سے فقیروں کو نہ پوچھا
یہ کہتے ہوئے چل دیے ساقی کا بھلا ہو
اللٰہ رے او دشمن اظہارِ محبت
وہ درد دیا ہے جو کسی سے نہ دوا ہو
تنہا وہ مری قبر پہ ہیں چاکِ گریباں
جیسے کسی صحرا میں کوئی پھول کھلا ہو
منصور سے کہتی ہے یہی دارِ محبت
اس کی یہ سزا ہے جو گنہگارِ وفا ہو
جب لطف ہو اللہ ستم والوں سے پوچھے
تو یاس کی نظروں سے مجھے دیکھ رہا ہو
فرماتے ہیں وہ سن کے شبِ غم کی شکایت
کس نے یہ کہا تھا کہ قمر تم ہمیں چا ہو
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست