تم آگ لینے آئے تھے کیا آئے کیا چلے

شیخ ابراہیم ذوق


لیتے ہی دل جو عاشق دل سوز کا چلے
تم آگ لینے آئے تھے کیا آئے کیا چلے
تم چشم سرمگیں کو جو اپنی دکھا چلے
بیٹھے بٹھائے خاک میں ہم کو ملا چلے
دیوانہ آ کے اور بھی دل کو بنا چلے
اک دم تو ٹھہرو اور بھی کیا آئے کیا چلے
ہم لطف سیر باغ جہاں خاک اڑا چلے
شوق وصال دل میں لیے یار کا چلے
غیروں کے ساتھ چھوڑ کے تم نقشِ پا چلے
کیا خوب پھول گور پہ میری چڑھا چلے
دکھلا کے مجھ کو نرگسِ بیمار کیا چلے
آوارہ مثل آہوئے صحرا بنا چلے
اے غم مجھے تمام شبِ ہجر میں نہ کھا
رہنے دے کچھ کہ صبح کا بھی ناشتا چلے
بل بے غرورِ حسن زمیں پر نہ رکھے پاؤں
مانند آفتاب وہ بے نقشِ پا چلے
کیا لے چلے گلی سے تری ہم کو جوں نسیم
آئے تھے سر پہ خاک اڑانے اڑا چلے
افسوس ہے کہ سایہ مرغ ہوا کی طرح
ہم جس کے ساتھ ساتھ چلیں وہ جدا چلے
کیا دیکھتا ہے ہاتھ مرا چھوڑ دے طبیب
یاں جان ہی بدن میں نہیں نبض کیا چلے
قاتل جو تیرے دل میں رکاوٹ نہ ہو تو کیوں
رک رک کے میرے حلق پہ خنجر ترا چلے
لے جائیں تیرے کشتے کو جنت میں بھی اگر
پھر پھر کے تیرے گھر کی طرف دیکھتا چلے
آلودہ چشم میں نہ ہوئی سرمے سے نگاہ
دیکھا جہاں سے صاف ہی اہلِ صفا چلے
روزِ ازل سے زلفِ معنبر کا ہے اسیر
کیا اڑ کے تجھ سے طائر نکہت بھلا چلے
ساتھ اپنے لے کے توسن عمرِ رواں کو آہ
ہم اس سرائے دہر میں کیا آئے کیا چلے
سلجھائیں زلفیں کیا لب دریا پہ آپ نے
ہر موج مثل مارسیہ تم بنا چلے
دنیا میں جب سے آئے رہا عشق گل رخاں
ہم اس جہاں میں مثلِ صبا خاک اڑا چلے
قاتل سے دخل کیا ہے کہ جاں بر ہو اپنا ہوش
گر اڑ کے مثل طائر رنگِ حنا چلے
فکر قناعت ان کو میسر ہوئی کہاں
دنیا سے دل میں لے کے جو حرص و ہوا چلے
اس روئے آتشیں کے تصور میں یاد زلف
یعنی غضب ہے آگ لگے اور ہوا چلے
اے ذوقؔ ہے غضب نگہِ یار الحفیظ
وہ کیا بچے کہ جس پہ یہ تیرِ قضا چلے
فہرست