دل میں سناٹا تو باہر کی فضا بھی خاموش

عرفان صدیقی


ڈوبتی شام پرندوں کی نوا بھی خاموش
دل میں سناٹا تو باہر کی فضا بھی خاموش
دیکھتے دیکھتے دروازے نظر سے اوجھل
بولتے بولتے تقش کف پا بھی خاموش
رات کی رات وہی رنگ ترنگوں کی پکار
صبح تک خون بھی خاموش، حنا بھی خاموش
شہر خوابیدہ میں فریاد نہ عکس فریاد
آخری سلسلۂ صوت و صدا بھی خاموش
فرض سے کوئی سبک دوش نہیں ہو پاتا
سرِ تسلیم بھی چپ، تیغِ جفا بھی خاموش
کوئی ہے تیرگیِ شام کا مجرم کہ یہاں
ہے چراغوں کی طرح موجِ ہوا بھی خاموش
آج تک اہلِ ستم ہی سے شکایت تھی مجھے
سو مرے باب میں ہیں اہلِ وفا بھی خاموش
اب دعائیں نہ صحیفے سر دنیائے خراب
میں بھی خاموش ہوا میرا خدا بھی خاموش
رات کی رات وہی رنگ ترنگوں کی پکار
صبح تک خون بھی خاموش‘ حنا بھی خاموش
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست