بات یہ ہے کہ میں تو تھا ہی نہیں

جون ایلیا


کام مجھ سے کوئی ہوا ہی نہیں
بات یہ ہے کہ میں تو تھا ہی نہیں
مجھ سے بچھڑی جو موج نکہت یار
پھر میں اس شہر میں رہا ہی نہیں
کس طرح ترک مدعا کیجے
جب کوئی اپنا مدعا ہی نہیں
کون ہوں میں جو رائیگاں ہی گیا
کون تھا جو کبھی ملا ہی نہیں
ہوں عجب عیش غم کی حالت میں
اب کسی سے کوئی گلہ ہی نہیں
بات ہے راستے پہ جانے کی
اور جانے کا راستہ ہی نہیں
ہے خدا ہی پہ منحصر ہر بات
اور آفت یہ ہے خدا ہی نہیں
دل کی دنیا کچھ اور ہی ہوتی
کیا کہیں اپنا بس چلا ہی نہیں
اب تو مشکل ہے زندگی دل کی
یعنی اب کوئی ماجرا ہی نہیں
ہر طرف ایک حشر برپا ہے
جونؔ خود سے نکل کے جا ہی نہیں
موج آتی تھی ٹھہرنے کی جہاں
اب وہاں خیمۂ صبا ہی نہیں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست