خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں

جون ایلیا


اے صبح میں اب کہاں رہا ہوں
خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں
سب میرے بغیر مطمئن ہوں
میں سب کے بغیر جی رہا ہوں
کیا ہے جو بدل گئی ہے دنیا
میں بھی تو بہت بدل گیا ہوں
گو اپنے ہزار نام رکھ لوں
پر اپنے سوا میں اور کیا ہوں
میں جرم کا اعتراف کر کے
کچھ اور ہے جو چھپا گیا ہوں
میں اور فقط اسی کی خواہش
اخلاق میں جھوٹ بولتا ہوں
اک شخص جو مجھ سے وقت لے کر
آج آ نہ سکا تو خوش ہوا ہوں
ہر شخص سے بے نیاز ہو جا
پھر سب سے یہ کہہ کہ میں خدا ہوں
چرکے تو تجھے دیے ہیں میں نے
پر خون بھی میں ہی تھوکتا ہوں
رویا ہوں تو اپنے دوستوں میں
پر تجھ سے تو ہنس کے ہی ملا ہوں
اے شخص میں تیری جستجو سے
بیزار نہیں ہوں تھک گیا ہوں
میں شمعِ سحر کا نغمہ گر تھا
اب تھک کے کراہنے لگا ہوں
کل پر ہی رکھو وفا کی باتیں
میں آج بہت بوجھا ہوا ہوں
کوئی بھی نہیں ہے مجھ سے نادم
بس طے یہ ہوا کہ میں برا ہوں
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست