کہ نہ ہنستے میں رو دیا ہو گا

خواجہ میر درد


جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہو گا
کہ نہ ہنستے میں رو دیا ہو گا
ان نے قصداً بھی میرے نالے کو
نہ سنا ہو گا گر سنا ہو گا
دیکھیے اب کے غم سے جی میرا
نہ بچے گا بچے گا کیا ہو گا
دل زمانے کے ہاتھ سے سالم
کوئی ہو گا جو رہ گیا ہو گا
حال مجھ غم زدہ کا جس تس نے
جب سنا ہو گا رو دیا ہو گا
دل کے پھر زخمِ تازہ ہوتے ہیں
کہیں غنچہ کوئی کھلا ہو گا
یک بہ یک نام لے اٹھا میرا
جی میں کیا اس کے آ گیا ہو گا
میرے نالوں پہ کوئی دنیا میں
بن کیے آہ کم رہا ہو گا
لیکن اس کو اثر خدا جانے
نہ ہوا ہو گا یا ہوا ہو گا
قتل سے میرے وہ جو باز رہا
کسی بد خواہ نے کہا ہو گا
دل بھی اے دردؔ قطرۂ خوں تھا
آنسوؤں میں کہیں گرا ہو گا
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست