ماہ پردے سے تک رہا ہو گا

مصحفی غلام ہمدانی


جب کہ بے پردہ تو ہوا ہو گا
ماہ پردے سے تک رہا ہو گا
کچھ ہے سرخی سی آج پلکوں پر
قطرۂِ خوں کوئی بہا ہو گا
میرے نامے سے خوں ٹپکتا تھا
دیکھ کر اس نے کیا کہا ہو گا
گھورتا ہے مجھے وہ دل کی مرے
میری نظروں سے پا گیا ہو گا
یہی رہتا ہے اب تو دھیان مجھے
واں سے قاصد مرا چلا ہو گا
جس گھڑی تجھ کو کنج خلوت میں
پا کے تنہا وہ آ گیا ہو گا
مصحفیؔ اس گھڑی میں حیراں ہوں
تجھ سے کیوں کر رہا گیا ہو گا
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست