مجھ پر اک رات کرو گے جو کرم کیا ہو گا

مصحفی غلام ہمدانی


تم بھی آؤگے مرے گھر جو صنم کیا ہو گا
مجھ پر اک رات کرو گے جو کرم کیا ہو گا
ایک عالم نے کیا ہے سفر ملکِ عدم
ہم بھی جاویں گے اگر سوئے عدم کیا ہو گا
دمِ رخصت ہے مرا آج مری بالیں پر
تم اگر وقفہ کرو گے کوئی دم کیا ہو گا
دیکھ اس چاکِ گریباں کو تو یہ کہتی ہے صبح
جس کا سینہ ہے یہ کچھ اس کا شکم کیا ہو گا
چین ہو جائے گا دل کو مرے از راہ کرم
میری آنکھوں پہ رکھوگے جو قدم کیا ہو گا
صحبت غیر کا انکار تو کرتے ہو ولے
کھاؤگے تم جو مرے سر کی قسم کیا ہو گا
شانہ اک عمر سے کرتا ہے دو وقتی خدمت
تجھ کو معلوم ہے اے دیدۂِ نم کیا ہو گا
مصحفیؔ وصل میں اس کے جو موا جاتا ہو
اس پہ ایام جدائی میں ستم کیا ہو گا
فہرست