غزل سرا
ہماری کتابیں
شعراء
رابطہ
اکاؤنٹ
رجسٹر
لاگ اِن
غزل سرا کے بارے میں
تلاش
مرزا غالب
تم وہ نازک کہ خموشی کو فغاں کہتے ہو
ہم وہ عاجز کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو
تمھاری طرز و روش جانتے ہیں ہم، کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لطف تو ستم کیا ہے
تیری وفا سے کیا ہو تلافی؟ کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
انشاء اللہ خان انشا
کنایہ اور ڈھب کا اس مری مجلس میں کم کیجے
اجی سب تاڑ جاویں گے نہ ایسا تو ستم کیجے
گاہے گاہے جو ادھر آپ کرم کرتے ہیں
وہ ہیں اٹھ جاتے ہیں یہ اور ستم کرتے ہیں
اغیار سے کرتے ہو مرے سامنے باتیں
مجھ پر یہ لگے کرنے نیا تم ستم اچھا
بہادر شاہ ظفر
کیا کیا جفا کشوں پہ ہیں ان دلبروں کے ظلم
ایسوں کے سہتے ایسے ستم ایسے شخص ہیں
کیا پوچھتا ہے ہم سے تو اے شوخ ستم گر
جو تو نے کیے ہم پہ ستم کہہ نہیں سکتے
داغ دہلوی
زمانے کے کیا کیا ستم دیکھتے ہیں
ہمیں جانتے ہیں جو ہم دیکھتے ہیں
مصحفی غلام ہمدانی
پر دانتوں تلے زباں دبانا
بیداد ہے قہر ہے ستم ہے
مصحفیؔ وصل میں اس کے جو موا جاتا ہو
اس پہ ایام جدائی میں ستم کیا ہو گا
مصطفٰی خان شیفتہ
جب رقیبوں کا ستم یاد آیا
کچھ تمہارا بھی کرم یاد آیا
کس لیے لطف کی باتیں ہیں پھر
کیا کوئی اور ستم یاد آیا
مومن خان مومن
عدم میں رہتے تو شاد رہتے اسے بھی فکر ستم نہ ہوتا
جو ہم نہ ہوتے تو دل نہ ہوتا جو دل نہ ہوتا تو غم نہ ہوتا
فیض احمد فیض
عجز اہلِ ستم کی بات کرو
عشق کے دم قدم کی بات کرو
ہم ایک عمر سے واقف ہیں، اب نہ سمجھاؤ
کہ لطف کیا ہے مرے مہرباں، ستم کیا ہے
مرزا رفیع سودا
ستم سے کیا تو نے ہم کو جو خوگر
کرم سے ترے ہم ستم دیکھتے ہیں
باقی صدیقی
اپنی آواز پہ رحم آتا ہے
اس بلندی پہ ستم دیکھتے ہیں
یاد آئیں گے زمانے کو ہم آتے آتے
اک تری بھولی ہوئی طرزِ ستم ہیں ہم لوگ
اس زمانے میں وفا کا دعویٰ
خود پہ کرتے ہیں ستم دیوانے
جگر مراد آبادی
میری زباں پہ شکوۂ اہلِ ستم نہیں
مجھ کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں
ملتا ہے کیوں مزہ ستمِ روزگار میں
تیرا کرم بھی خود جو شریک ستم نہیں
قمر جلالوی
مجھ پر ہے یہ نزع کا عالم اور
پھر سوچ لو باقی تو نہیں کوئی ستم اور
ہے وعدہ خلافی کے علاوہ بھی ستم اور
گر تم نہ خفا ہو تو بتا دیں تمھیں ہم اور
وہ پوچھتے ہیں دیکھئے یہ طرفہ ستم اور
کس کس نے ستایا ہے تجھے ایک تو ہم اور
شکوے فضول گردشِ دوراں کے اے قمر
یہ آسماں نہ چھوڑے گا جورو ستم ابھی
وہ ستا کر مجھے کہتے ہیں کہ غم ہوتا ہے
یہ ستم اور بھی بالائے ستم ہوتا ہے
ہمارے بعد جو چھوڑے ستم تو کیا ہو گا
خجل ہوئے پہ یہ توڑی قسم تو کیا ہو گا
عرفان صدیقی
جانتے سب ہیں کہ ہم رکھتے ہیں خم طرفِ کلاہ
اور کیوں رکھتے ہیں، یہ اہلِ ستم جانتے ہیں
کتنے دلدار تھے اربابِ ستم دلی کے
چین ملتا ہے تو یاد آتے ہیں غم دلی کے
مصطفی زیدی
تباہ ہونے کا ارماں سہی محبت میں
کسی کو خوئے ستم ہی نہ ہو تو کیا کیجے
ادا جعفری
بیگانگی طرزِ ستم بھی بہانہ ساز
بیچارگی کرب و الم بھی بہانہ ساز