وہ ہیں اٹھ جاتے ہیں یہ اور ستم کرتے ہیں

انشاء اللہ خان انشا


گاہے گاہے جو ادھر آپ کرم کرتے ہیں
وہ ہیں اٹھ جاتے ہیں یہ اور ستم کرتے ہیں
جی نہ لگ جائے کہیں تجھ سے اسی واسطے بس
رفتہ رفتہ ترے ہم ملنے کو کم کرتے ہیں
واقعی یوں تو ذرا دیکھیو سبحان اللہ
تیرے دکھلانے کو ہم چشم یہ نم کرتے ہیں
عشق میں شرم کہاں ناصح مشفق یہ بجا
آپ کو کیا ہے جو اس بات کا غم کرتے ہیں
گالیاں کھانے کو اس شوخ سے ملتے ہیں ہاں
کوئی کرتا نہیں جو کام سو ہم کرتے ہیں
ہیں طلب گار محبت کے میاں جو اشخاص
وہ بھلا کب طلب دام و درم کرتے ہیں
عین مستی میں ہمیں دید فنا ہے انشاؔ
آنکھ جب موندتے ہیں سیرِ عدم کرتے ہیں
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست