مرزا غالب

تماشا کر اے محو آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
صد رہ آہنگ زمیں بوسِ قدم ہے ہم کو
دل کو میں اور مجھے دل محوِ وفا رکھتا ہے
کس قدر ذوقِ گرفتاریِ ہم ہے ہم کو
اس جور و جفا پر بھی بدظن نہیں ہم تجھ سے
کیا طرفہ تمنا ہے امیدِ کرم تجھ سے
یہ جور و جفا سہنا پھر ترکِ وفا کرنا
اے ہرزہ پژوہی بس عاجز ہوئے ہم تجھ سے
غالب کی وفا کیشی اور تیری ستم رانی
مشہورِ زمانہ ہے اب کیا کہیں ہم تجھ سے
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے
خدا کے واسطے داد اس جنونِ شوق کی دینا
کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے
تمھاری طرز و روش جانتے ہیں ہم، کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لطف تو ستم کیا ہے
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
اللہ ری تیری تندی خو جس کے بیم سے
اجزائے نالہِ دل میں مرے رزقِ ہم ہوئے

انشاء اللہ خان انشا


بہادر شاہ ظفر


حیدر علی آتش


داغ دہلوی


شیخ ابراہیم ذوق


مصطفٰی خان شیفتہ


فیض احمد فیض


مرزا رفیع سودا


باقی صدیقی


جون ایلیا


جگر مراد آبادی


قمر جلالوی


شکیب جلالی


عرفان صدیقی