کیا طرفہ تمنا ہے امیدِ کرم تجھ سے

مرزا غالب


اس جور و جفا پر بھی بدظن نہیں ہم تجھ سے
کیا طرفہ تمنا ہے امیدِ کرم تجھ سے
امیدِ نوازش میں کیوں جیتے تھے ہم آخر
سہتے ہی نہیں کوی جب درد و الم تجھ سے
وارفتگی دل ہے یا دستِ تصرف ہے
ہیں اپنے تخیل میں دن رات بہم تجھ سے
یہ جور و جفا سہنا پھر ترکِ وفا کرنا
اے ہرزہ پژوہی بس عاجز ہوئے ہم تجھ سے
غالب کی وفا کیشی اور تیری ستم رانی
مشہورِ زمانہ ہے اب کیا کہیں ہم تجھ سے
فہرست