کچھ تمہارا بھی کرم یاد آیا

مصطفٰی خان شیفتہ


جب رقیبوں کا ستم یاد آیا
کچھ تمہارا بھی کرم یاد آیا
کب ہمیں حاجتِ پرہیز پڑی
غم نہ کھایا تھا کہ سم یاد آیا
نہ لکھا خط کہ خطِ پیشانی
مجھ کو ہنگامِ رقم یاد آیا
شعلۂِ زخم سے اے صید فگن
داغ آہوئے حرم یاد آیا
ٹھیرے کیا دل کہ تری شوخی سے
اضطرابِ پئے ہم یاد آیا
خوبیِ بخت کہ پیمانِ عدو
اس کو ہنگامِ قسم یاد آیا
کھل گئی غیر سے الفت اس کی
جامِ مے سے مجھے جم یاد آیا
وہ مرا دل ہے کہ خود بینوں کو
دیکھ کر آئینہ کم یاد آیا
کس لیے لطف کی باتیں ہیں پھر
کیا کوئی اور ستم یاد آیا
ایسے خود رفتہ ہو اے شیفتہ کیوں
کہیں اس شوخ کا رم یاد آیا
فہرست