کن حسرتوں سے خون ہم اپنا پیا کیے

مصطفٰی خان شیفتہ


دستِ عدو سے شب جو وہ ساغر لیا کیے
کن حسرتوں سے خون ہم اپنا پیا کیے
شکرِ ستم نے اور بھی مایوس کر دیا
اس بات کا وہ غیر سے شکوہ کیا کیے
کب دل کے چاک کرنے کی فرصت ہمیں ملی
ناصح ہمیشہ چاکِ گریباں سیا کیے
تشبیہ دیتے ہیں لب جاں بخش یار سے
ہم مرتے مرتے نام مسیحا لیا کیے
ذکر وصال غیر و شب ماہ و بادہ سے
ایسے لیے گئے ہمیں طعنے دیا کیے
تھی لحظہ لحظہ ہجر میں اک مرگ نو نصیب
ہر دم خیالِ لب سے ترے ہم جیا کیے
طرزِ سخن کہے وہ مسلم ہے شیفتہؔ
دعوے زبان سے نہ کیے میں نے یا کیے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست