آتا ہوں ہے کے گھر سے تیری قسم ابھی

قمر جلالوی


وہ فتنہ ساز دے کے گیا ہے یہ دم ابھی
آتا ہوں ہے کے گھر سے تیری قسم ابھی
ظالم وہ دیکھ پاس سے اٹھتے ہیں چارہ گر
تیرے مریضِ ہجر نے توڑا ہے دم ابھی
ان کے لیے تو کھیل ہے دنیا کا انقلاب
چاہیں تو بتکدے کو بنا دیں حرم ابھی
کیا آپ سا کوئی نہیں ہے جہاں میں
اچھا حضور آئینہ لاتے ہیں ہم ابھی
کوچے سے ان کے اٹھتے ہی یوں بدحواس ہوں
آیا ہوں جیسے چھوڑ کے باغِ ارم ابھی
ذوق الم میں حق سے دعا مانگتا ہوں میں
جتنے بھی مجھ کو دینے ہیں دے دے الم ابھی
شکوے فضول گردشِ دوراں کے اے قمر
یہ آسماں نہ چھوڑے گا جورو ستم ابھی
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست